بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نبی کریم ﷺ نے مقروض کی جنازہ نہیں پڑھائی؟


سوال

میں نے سنا ہے کہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی تھی جب تک کہ قرض کی ادائیگی کا ذمہ  کسی اور نے نہیں لے لیا۔ تو کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا مقروض کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی؟

جواب

مذکورہ روایت درست ہے اور کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ صحیح بخاری،صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی سمیت دیگر کتبِ احادیث میں موجود ہے۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم اور مقروض کی نمازِ جنازہ کا حکم درج ذیل ہے:

ابتدا میں نبی کریم ﷺ کا طرزِ عمل یہی تھا کہ آپ ﷺ میت کے قرض سے متعلق دریافت فرماتے تھے، اگر کوئی مقروض ہوتا اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑ کر جاتا اور کوئی شخص بھی اس کے قرض کی ذمہ داری نہیں اٹھاتا تھا  تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی نماز جنازہ کی ادائیگی کا حکم فرماتے، البتہ اگر کوئی شخص میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کا ذمہ لے لیتا، پھر آپ ﷺ خود اس کی نماز جنازہ پڑھاتے۔ لیکن پھر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فتوحات کے دروازے کھول دیے اور مشرکین و کفار سے جنگ کے بعد غنیمت وغیرہ کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا  کہ میں دین و دنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں، لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو (اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے کا، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔

بہرحال ابتدائی زمانے میں اگرچہ رسول اللہ ﷺ نمازِ جنازہ ادا نہیں فرماتے تھے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نمازِ جنازہ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نمازِ جنازہ پڑھتے تھے؛ لہٰذا مقروض کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، نیز میت کے مقروض ہونے نہ ہونے سے متعلق تحقیق کرنا یا مقروض کی نماز جنازہ ادا کرنے سے انکار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ (امدادالفتاوی1/597مکتبہ دارالعلوم کراچی)

نبی کریمﷺکے مقروض کی نماز جنازہ سے متعلق انکار کرنے سے متعلق محدثین نے کئی حکمتیں لکھی ہیں، چنانچہ علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں:

"ہو سکتا ہے کہ تینوں جنازے ایک ہی دن اور ایک ہی مجلس میں لائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ الگ الگ دن اور الگ الگ مجلس میں یہ جنازے لائے گئے ہوں۔ دوسرے شخص پر جو قرض تھا اس کی مقدار انہیں تین دینار کے برابر رہی ہوگی جو وہ چھوڑ کر مرا تھا، اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس شخص پر جتنا قرض ہے اس کی ادائیگی کے بقدر اثاثہ چھوڑ کر مرا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ تیسرا چوں کہ اپنے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑ کر نہیں مرا تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ قرض سے پرہیز کریں اور اگر بدرجہ مجبوری قرض لیں تو اس کی ادائیگی میں تاخیر و تقصیر سے باز رہیں یا یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ میں اس کے لیے دعا کروں اور دعا قبول نہ ہو؛ کیوں کہ اس پر لوگوں کا حق تھا جس سے بری الذمہ ہوئے بغیر وہ مر گیا تھا"۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، رضي الله عنه، قال : كنا جلوسًا عند النبي صلى الله عليه وسلم، إذ أتي بجنازة، فقالوا: صل عليها، فقال: هل عليه دين؟ قالوا: لا، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقالوا: يا رسول الله، صل عليها، قال: هل عليه دين؟ قيل: نعم، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: ثلاثة دنانير، فصلى عليها، ثم أتي بالثالثة، فقالوا: صل عليها، قال: هل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، قال: فهل عليه دين؟ قالوا: ثلاثة دنانير، قال: صلوا على صاحبكم، قال أبو قتادة: صل عليه يا رسول الله، وعلي دينه، فصلى عليه."

(رقم الحدیث:2298،ج:3ص:124،ط:دارالشعب القاھرۃ)

"ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس اثنا میں ایک جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر کوئی قرض ہے؟ صحابہ نے  کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا، آپ  اس پر نماز پڑھ دیں، آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا:اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس پر نماز پڑھیں، میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

دیگر کتب کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

صحيح مسلم - (5 / 62)

"عن أبى هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يؤتى بالرجل الميت عليه الدين فيسأل « هل ترك لدينه من قضاء ». فإن حدث أنه ترك وفاء صلى عليه وإلا قال « صلوا على صاحبكم ». فلما فتح الله عليه الفتوح قال « أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفى وعليه دين فعلى قضاؤه ومن ترك مالا فهو لورثته ».

سنن النسائي- (4 / 66):

"عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا توفى المؤمن وعليه دين سأل هل ترك لدينه من قضاء فإن قالوا نعم صلى عليه وإن قالوا: لا، قال: صلوا على صاحبكم، فلما فتح الله عز و جل على رسوله صلى الله عليه و سلم، قال: أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفى وعليه دين فعلي قضاؤه، و من ترك مالًا فهو لورثته".

سنن ابن ماجه (3 / 490):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: إذا توفي المؤمن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه الدين، فيسأل: هل ترك لدينه من قضاء؟ فإن قالوا: نعم، صلى عليه، وإن قالوا: لا، قال: صلّوا على صاحبكم، فلمّا فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الفتوح، قال: أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں