بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کی عزت نفس مجروح کرنے کا شرعی حکم


سوال

اگر قرض کی رقم تاخیر سے ادا کی گئی ہو اور قرض خواہ نے مقروض کی عزت نفس مجروح کی ہو تو شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

مقروض کی عزتِ نفس مجروح کرنا جائز نہیں ہے،  مقروض اگر قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھتا ہو تو  بلاوجہ  قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کو  حدیث شریف میں ظلم قرار دیا گیا ہے، ليكن اگر مقروض  قرض کی ادائیگی پر قادر  نہ ہو تو اس كو  مہلت دینے کے بارے  میں  حديث ميں فضائل وارد  ہوئے ہیں،اس  لیے ایسی صورت میں  جب  مقروض   قرض كی ادائیگی پر قادر  نہ ہو  تو اس كو  مہلت دے دینا  چاہیے۔

چناں چہ امام احمدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ:

"عن سليمان بن بريدة عن أبيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثله صدقة، قال: ثم سمعته يقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثليه صدقة، قلت: سمعتك يا رسول الله تقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثله صدقة، ثم سمعتك تقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثليه صدقة؟ قال: له بكل يوم صدقة قبل أن يحل الدين، فإذا حل الدين فأنظره فله بكل يوم مثليه صدقة."

(المسند للامام احمد،حديث بريدة الأسلمي،38/ 153، ط: مؤسسة الرسالة)

"یعنی جو شخص مفلس وتنگ دست کو مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے  اور وہ پھر اسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔"

فتح الباري لابن حجر میں ہے:

"قوله فإن ‌لصاحب ‌الحق مقالا أي صولة الطلب وقوة الحجة لكن مع مراعاة الأدب المشروع."

 ( باب استقراض الإبل،5/ 56،دار المعرفة)

التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں ہے:

"سادسها: من آذى السلطان بجفاء وشبهه، فإن لأصحابه أن يعاقبوه وينكروا عليه وإن لم يأمرهم بذلك، إذ في الحديث الآتي بعد أنه أغلظ له وهَمّ به أصحابه فقال "إن ‌لصاحب ‌الحق مقالًا" أي: صولة الطلب، وقوة الحجة، لكن على من يمطل أو يسيء المعاملة، وأما من أنصف من نفسه فبذل ما عنده واعتذر عما ليس عنده، فلا يجوز الاستطالة عليه بحال."

 ( كتاب الوكالة، باب وكالة الشاهد والغائب جائزة،15/ 179،ط:دار النوادر)

شرح المشكاة للطيبي میں ہے:

"وعن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ((إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير الحق)) رواه أبو داود، والبيهقي في ((شعب الإيمان)).... قوله: (بغير حق)) تنبيه على أن العرض ربما يجوز استباحته في بعض الأحوال. وذلك مثل قوله صلى الله عليه وسلم: ((لي الواجد يحل عرضه)) فيجوز ‌لصاحب ‌الحق أن يقول فيه: إنه ظالم ومتعد ونحو ذلك، ومثله الكلام في جرح الشاهد على الخائن ونحو ذلك."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه،10/ 3217،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں