بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کا وسعت کے باوجود بلا وجہ ٹال مٹول کرنا ظلم ہے


سوال

میں ایک دکان دار ہوں، چمڑے سے بنی ہوئی مختلف چیزوں کاہول سیل ریٹ پر کام کرتا ہوں،پورے پاکستان میں دکان داروں کو نقد اور ادھار پر سامان دیتا ہوں،ایک دکان دار جو کہ تقریباً پچھلے دس سالوں سے مجھ سے مال لیتا رہا، اور پیسے بھیجتا رہا،لیکن اچانک اس نے پیسے دینے بند کردیے،تقریباً350000روپے ہیں،کئی مرتبہ پیسے دینے کا وعدہ کیا،مگر وقتِ مقررہ پر ادائیگی نہیں کی، ٹال مٹول کرتا ہے، فون تک نہیں اٹھاتا،اپنا کاروبار اس کا اچھا جا رہا ہے، ایک دکان سے دو دکانیں ہوگئیں، اس نے اپنی بیٹی کی شادی بھی کروادی،دوسرے دکان داروں سے نقد پر مال لیتا ہے،اور مجھے میرے پیسے نہیں لوٹا رہا، کیا اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ خریداری کے بعد مقررہ رقم خریدار پر قرض ہوتی ہے اور قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا  ظلم ہے، اور ایسے شخص کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے شرعاً ظالم کہا جائے گا، نیز  استطاعت کے باوجود اگر کوئی قرض نہ اتارے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس وعید کا مستحق نہ بن جائے جس کے مطابق مقروض شہید بھی ہوجائے تو قرض کے وبال سے اسے خلاصی نہیں ملے گی، جب کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ ﷺ ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔

صورت مسئولہ میں  مقروض کا ذکر کردہ طرزِ عمل شرعاً ظلم اور ناجائز ہے،اس پر لازم ہے  کہ  سائل کا قرضہ واپس کرے،اور اتنے عرصہ ٹال مٹول کرنے پر  توبہ واستغفار کرے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعُ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج1،ص18،ط:قدیمی)

وفيه ايضا:

  وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلَّا قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ، وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

(کتاب الفرائض،باب من ترک مالا فلورثتہ،ج2،ص35،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں