بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض آدمی کو زکوۃ کی رقم دے کر قرض کی مد میں واپس لینے کا حکم


سوال

میں نے اپنے چچا کو  2 سال پہلےپانچ لاکھ روپے ادھار دیے تھے، اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ: میں آپ کو چھ مہینوں میں یہ پیسے واپس دے دوں گا، اب ان کی کنڈیشن بہت خراب ہوچکی ہے اور تقریبا 20 سے 25 لاکھ روپے ان پر قرض ہیں اور ان کے 6 لڑکے ہیں، جس میں سے ایک لڑکا ایب نارمل ہے، باقی چار شادی شدہ ہیں اور ایک غیرہ شادی شدہ ہے، جس میں یہ سارے بھائی جاب(ملازمت) کرتے ہیں، اور اپنا گھر چلاتے ہیں، ان کے دو فلیٹ پگڑی کے ہیں، پھر بھی ان کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا، سب ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں اس صورت میں میں اگر ان کو 5 لاکھ روپے زکوٰۃ کے ادا کروں اور وہ میرے پیسے مجھے واپس دیدے، اس طرح کرنا جائز ہوگا؟

اچھایہ بھی ہے کہ ان  کے بیٹوں کی شادی میں ان کی بیویوں کو شاید کچھ زیورات دیے گیے ہوں ، اور کچھ زیورات میکے سے بھی لائی ہوں گی، جس کے مالک ان کی بیویاں ہیں، کیا ان کی زیورات زکوٰۃ کے لیے مانع ہوں گی ؟

جواب

واضح  رہے کہ زکوٰۃ واجب  ہونے میں ہر شخص کی انفرادی ملکیت کا اعتبار ہوگا، کسی شخص کے صاحب نصاب ہونے کی  وجہ سے  دوسرا آدمی مستحق زکوٰۃ ہونے سے نہیں نکلتا۔

 لہذا صورت مسئولہ میں اگر  واقعۃ سائل کا چچا مستحق زکوٰۃ ہے، یعنی اس کی ملکیت میں  ضرورت سے زائد   نصاب   زکوۃ ( ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی  یا اس کی قیمت) کے برابر  رقم  نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی ملکیت میں  اس  قدر ضرورت  اور استعمال سے زائد  سامان ہے، جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے،تو ایسی صورت میں اپنے چچاکو زکوٰۃ کی رقم مالک بنا کر دینا اور پھر اس سے اپنے قرض کی مد میں وہ رقم وصول کر لینا  شرعا جائز ہے، سائل کے چچا کی بہو  کا مالدار ہونا اس کے لیے زکوٰۃ لینے کے مانع نہیں ہے، بلکہ   اس کے لیے زکوٰۃ کی رقم لینا شرعاجائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ چچا کو مذکورہ رقم مالک بناکر دیدے پھر قرض کی مد میں اس سے وصول کرے، اور  مذکورہ  رقم  چچاکو  دیے بغیر ایسے ہی زکات کی نیت سے قرض معاف کرنے سے سائل  کی زکات ادا نہیں ہوگی۔

ملاحظہ:یہ سوال کا جواب ہے، نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق ہے اور نہ ہی کسی کسی کے حق میں سفارش ہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز. وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه(قوله وحيلة الجواز) أي فيما إذا كان له دين على معسر، وأراد أن يجعله زكاة عن عين عنده أو عن دين له على آخر سيقبض (قوله أن يعطي مديونه إلخ) قال في الأشباه وهو أفضل من غيره أي لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون."

(کتاب الزکوة،ج:2، ص:271، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الزکوٰة،ج:1، ص:172،ط :دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں