بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معقول آمدنی ہونے کے باوجود تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا حکم


سوال

اگر ایک آدمی نوکری کرتا ہے اور اس سے اس کو ایک معقول آمدن ہو رہی ہے اور وہ شام کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے تو کیا وہ قرآن پڑھانے کی اجرت لے سکتا ہے؟

جواب

تعلیمِ قرآن (قرآن سکھانے اورپڑھانے)  کی اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے بوجہ ضرورت جائز قرار دیا ہے، لیکن یہ اجرت اصل میں  قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی، بلکہ ان کاموں کے لیے اپنے آپ کو محبوس  اور دیگر کاموں سے فارغ رکھ کر وقت دینے کی ہے، لہٰذا معقول آمدن کے باوجود بھی اتنے وقت کی اجرت لینے کی اجازت ہوگی۔ البتہ اگر کوئی دوسرا ذریعہ آمدن ہو جس سے ضروریات اور خرچے پورے ہوجاتے ہوں تو افضل یہ ہے کہ قرآن پاک کی تعلیم کے لیے خود کو محبوس کرنے کی بھی اجرت نہ لی جائے اور بلا اجرت اپنا ذریعہ آمدن سے بچنے والا وقت سعادت سمجھ کر قرآن پاک کی تعلیم میں صرف کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55 ):

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

 (قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 22):

قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205201321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں