بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقبوضہ پلاٹ کی خرید وفروخت


سوال

1۔مقبوضہ زمین پر پلاٹنگ کرکے بیچنے کا کیا حکم ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کا کیا حکم ہے؟

2۔ ایسے مقبوضہ پلاٹوں کو خرید کر ان پر رہائشی گھر بنانا کیسا ہے؟ یا پھر یہ پلاٹ خرید کر اس پر تعمیر کرکے آگے فروخت کرنا کیسا ہے اور کمائی کا کیا حکم ہے؟

نوٹ:یہ بات ملحوظ رہے کہ آج کل بہت سی ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں جہاں ایسا کیا جارہا ہے اور بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اس اسکیم  کے بعض پلاٹ جائز ہوتے ہیں اور بعض قبضہ کے ہوتے ہیں، اور اس کا علم بھی عام لوگوں کو نہیں ہوتا کہ کون سا پلاٹ قبضہ ہے اور کون سا صحیح ہے تو ایسی صورت میں جہاں علم نہ ہو، وہاں کیا حکم ہوگا؟

جواب

1۔ کسی دوسرے  شخص کی ملکیتی  زمین پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز اور حرام  ہے، حدیث مبارکہ میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی (یعنی غصب کی)، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔ لہذا  دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنے کے بعد  اس کو فروخت کرنا ناجائز ہے اور اس کے منافع بھی حلال نہیں ہیں۔

2۔  خریدنے والوں کو معلوم ہو کہ یہ پلاٹ غصب  کیا ہوا اور ظلم وجبر سے حاصل کیا ہوا ہے تو  ان کے لیے ایسے پلاٹ کو خریدنا جائز نہیں ہے،  اگر  معلوم نہ ہونے کی صورت میں خرید لیا  تو یہ معاملہ اصل مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا۔

نیز  اگر معلوم نہ ہونے کی صورت میں خرید کر رہائشی عمارت بنالی، اور اس پر رہائش اختیار کرلی تو  اس میں خریدار گناہ گار نہیں ہوگا، اسی طرح اگر عمارت بناکر آگے فروخت کردیا تو منافع بھی حرام نہیں ہوگا،  اس کے بعد  اگر اصل مالک آگیا  اوراس نے اپنا حق ثابت کردیا تو زمین  کو وہ حاصل کرلے  گا، اور پھر  خریدار ، فروخت کرنے والے سے رجوع کرے گا اور وہ اپنے فروخت کرنے والے سے رجوع کرے گا۔

3۔ ہاؤسنگ سوسائٹی میں اگر بعض پلاٹ قبضہ کے ہوں اور بعض صحیح ہوں، اور خریدنے والے کو متعینہ طور پر   علم نہ ہو تو اس کے لیے  اس سوسائٹی میں پلاٹ خریدنا جائز ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، (5/ 141) ط: مكتبه رشيديه) 

وفیہ أیضا:

"استحقاق المبيع على المشتري يوجب توقف العقد السابق على إجازة المستحق ولا يوجب نقضه وفسخه في ظاهر الرواية كذا في المحيط واختلف في البيع متى ينفسخ والصحيح أنه لا ينفسخ ما لم يرجع على بائعه بالثمن حتى لو أجاز المستحق بعدما قضى له أو بعدما قبضه قبل  أن يرجع المشتري على بائعه يصح كذا في النهر الفائق."

(الفتاوى الهندية (3 / 165)الباب الخامس عشر في الاستحقاق،ط: رشيدية)

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144305100611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں