بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندانی قبرستان میں دفنانے/کچی زمین والی قبر کی دیواروں کو پختہ کرنے اور زندگی میں اپنے لیے قبر کھودنے کا حکم


سوال

مندرجہ سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:

1۔ ہمارے گاؤں میں ایک عمومی قبرستان ہے،جس میں پورے گاؤں والے اپنے مردے دفناتے ہیں، اگر کوئی شخص اس عمومی قبرستان کو چھوڑ کر اپنی ملکیتی زمین میں اپنے خاندان کے لوگوں کو دفنانے کے لیے کوئی جگہ خاص کردے تو اس شخص کے لیے اپنے خاندان کے لوگوں کو  عمومی قبرستان میں دفنانا افضل ہوگا یا اس  خاص ملکیتی زمین کے قبرستان میں دفنانا افضل ہوگا؟

2۔ کچی زمین میں  قبر کھود کر اس میں بلاک کے ذریعے اس کی دیواروں کو مضبوط کرنا چاہیے یا پتھر کے ذریعے مضبوط کرنا بہتر ہے؟

3۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے لیے قبر کھود کر مخصوص کردے تو شرعاً یہ عمل کرنا کیسا ہے؟

جواب

1۔    صورتِ مسئولہ میں  میت کو اپنی ملکیتی زمین کے خاص قبرستان میں دفنانا جائز ہے، لیکن مسلمانوں کے  عام قبرستان میں دفن کرنا افضل ہے، جتنے لوگ قبرستان آئیں گے اور مردوں کے لیے دعا کریں گے تمام اموات ان دعاؤں میں شامل ہوں گے۔

روضة الطالبين میں ہے:

"‌باب‌الدفن:قد تقدم أنه فرض كفاية. ويجوز في غير المقبرة، لكن فيها أفضل."

(كتاب الجنائز ، باب الدفن، ج:2، ص:131، ط:المكتب الإسلامي)

أسنى المطالب في شرح روض الطالب میں ہے:

‌‌"(‌باب ‌الدفن) للميت (وهو في المقبرة أفضل) منه في غيرها للاتباع ولنيل دعاء الطارقين وفي أفضل مقبرة بالبلد أولى."

(كتاب الجنائز، باب الدفن للميت، ج:1، ص:324، ط:دار الكتاب الإسلامي)

2۔  قبر کے اندر میت کے اطراف میں بلا ضرورت لکڑی کے تختے،  پتھر،  سیمنٹ کی اینٹ، لوہا، اور بھٹی میں پکی ہوئی اینٹ لگانا مکروہِ تحریمی ہے،اگر زمین بہت نرم ہو، یا اس میں نمی ہو، اور قبر  گرنے کا خطرہ ہو تو بقدرِ ضرورت مذکورہ اشیاء لگانے کی اجازت ہوگی، اگر لکڑی پتھر یا سیمنٹ کی اینٹ سے ضرورت پوری ہوجائے،  تو بھٹی کی پختہ اینٹ اور لوہے سے احتراز کیا جائے، اس لیے کہ اس میں آگ کا اثر ہے،  پتھر اور سیمنٹ کی اینٹ میں یہ قباحت نہیں ہے، تاہم موجودہ دور میں مارکیٹ میں دست یاب مشینی بلاک  کچی اینٹ کے حکم میں ہیں، بھٹی میں پکا کر تیار کردہ پکی اینٹ کے حکم میں نہیں ہے، لہذا اس کا استعمال بھی  بوقتِ ضرورت درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويسوى اللبن والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب ‌لو ‌حوله، ‌أما ‌فوقه فلا يكره ابن مالك..(وجاز) ذلك حوله (بأرض رخوة) كالتابوت...(قوله: لو حوله إلخ) قال في الحلية: وكرهوا الآجر وألواح الخشب. وقال الإمام التمرتاشي: هذا إذا كان حول الميت، فلو فوقه لا يكره لأنه يكون عصمة من السبع. وقال مشايخ بخارى: لا يكره الآجر في بلدتنا للحاجة إليه لضعف الأراضي (قوله: عدد لبنات إلخ) نقله أيضا في الأحكام عن الشمني عن شرح مسلم بلفظ يقال عدد إلخ (قوله: وجاز ذلك) أي الآجر والخشب."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:236، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ويكره ‌الآجر ودفوف الخشب لما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: كانوا يستحبون اللبن والقصب على القبور، وكانوا يكرهون الآجر.

وروي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى أن تشبه القبور بالعمران، والآجر والخشب للعمران» ، ولأن الآجر مما يستعمل للزينة ولا حاجة إليها للميت، ولأنه مما مسته النار فيكره أن يجعل على الميت تفاؤلا، كما يكره أن يتبع قبره بنار تفاؤلا، وكان الشيخ أبو بكر محمد بن الفضل البخاري يقول: لا بأس بالآجر في ديارنا لرخاوة الأراضي، وكان أيضا يجوز دفوف الخشب واتخاذ التابوت للميت حتى قال: لو اتخذوا تابوتا من حديد لم أر به بأسا في هذه الديار."

(كتاب الصلاة، فصل سنة الحفر لدفن الميت، ج:1، ص:318، ط:دار الکتب  العلمية)

3۔ زندگی ميں ہی اپنے ليے  قبر کھودنا جائز ہے ،بشرطیکہ زمین یا قبرستان اپنا ذاتی ہو، عام مسلمانوں کیلئے وقف کی ہوئی جگہ کو اپنے لیے روک کر رکھنا درست نہیں ہے۔

وفيه أيضاً:

’’ويحفر قبراً لنفسه، وقيل: يكره؛ والذي ينبغي أن لايكره تهيئة نحو الكفن بخلاف القبر.
(قوله: ويحفر قبراً لنفسه) في بعض النسخ: وبحفر قبر لنفسه، على أن لفظة حفر مصدر مجرور بالباء مضاف إلى قبر: أي ولا بأس به. وفي التتارخانية: لا بأس به، ويؤجر عليه، هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خيثم وغيرهما."

 (کتاب الصلوۃ،باب الجنائز،ج:2، ص:244، ط:سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"ومن حفر قبراً لنفسه قبل موته فلا بأس به ویؤجر علیه، هكذا عمل عمر بن عبد العزیز والربیع بن خیثم وغیرهم."

  (کتاب الصلاۃ ، الجنائز ، القبروالدفن ج:3 ،ص:76،ط:زکریا)

امدادالاحکام میں ہے:

یہ صورت (یعنی سرکاری زمین میں تصرف کرنا) اپنی زمین میں تو جائز ہے ،مگر ایسی زمین جس میں حق عامہ متعلق ہو جائز نہیں۔" 

(کتاب الجنائز ،ج:3،ص:293 ،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144508101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں