1۔ہمارا ادارہ ہے جو ابتدائی مراحل میں ہے، اس کے لیے کوئی علاقہ والوں کا تعاون نہیں ہے اور آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے، البتہ زکوٰۃ کی رقم ہوتی ہے، تو اس زکوٰۃ کو مدرسہ کی تعمیرات میں کس طرح لگائیں اور کیا طریقہ اختیار کریں؟ اور مدرسے میں ابھی تک مسافر اور رہائشی طلبہ نہیں ہیں، صرف مقامی طلبہ پڑھتے ہیں۔
2۔ میرے پاس کچھ سونا ہے، جو ایک تولہ سے کم ہے، یا تقریباً ایک تولہ ہے اور اس کو تقریباً سات سال ہوگئے ہیں، تو کیا اس سونے پر زکوٰۃ لازم ہے؟ اور اگر لازم ہے، تو کتنی لازم ہے؟
نوٹ: اس کے علاوہ اور کوئی رقم وغیرہ نہیں ہے۔
1۔صورت مسئولہ میں مذکورہ مدرسہ محلے کا مدرسہ ہے ،جس میں مقامی بچے پڑھتے ہیں، مسافر طلباء رہائش پذیر نہیں تو زکوۃ و صدقات واجبہ کا مصرف نہ ہونے کی وجہ سے مدرسے والوں کا زکات وصول کرنادرست نہیں ،اگر لوگوں نے زکات کی رقم دی ہے ان کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔
البتہ آئندہ ا گر مدرسے میں مسافر وغریب طلباء مقیم ہوں، ان کے قیام و طعام، علاج وغیرہ کے اخراجات مدرسہ ہی ادا کرتا ہو، تو اس صورت میں زکوۃ و صدقات واجبہ نقد یا سامان کی صورت میں طلباء کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، اس طرح کہ طلباء کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر کے دیا جائے،وظیفہ دینے کے بعد کھانے کی مد میں رقم اور طے شدہ فیس طلبہ سے لے کر پھر اس سے کھانا پکانا،تنخواہیں دینا،تعمیرات وغیرہ کے اخراجات پورے کرنا جائز ہوگا، تملیک کیے بغیر برا ہ راست زکوۃ و صدقات واجبہ سے تعمیر کی مد میں خرچ کرنا جائز نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر...الخ"
(باب مصرف الزکوۃ والعشر،2/ 344،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة...الخ"
(الباب السابع في المصارف،1/ 187،ط:رشیدية)
فتاوی بینات میں حضرت گنگوھی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جامع ہدایت مذکور ہے:
"مدارس دینیہ کے نمائندوں کو زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی رقم حوالہ کردینے سے زکوٰۃ اور صدقہ ادا ہوجائے گا باقی ان کے لیے ضروری ہے کہ بحیثیت امین کے امانتداری سے زکوٰۃ و صدقہ کی رقم کو اپنے مصارف مشروعہ منصوصہ میں خرچ کریں اور دوسرے فنڈز کی رقم کو اپنے مصارف میں خرچ کریں" (تذکرۃ الرشید)
(کتاب المعاملات،جلد:4/صفحہ:258)
2۔صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی ملکیت میں صرف ایک تولہ سونا ہے ، اس کے علاوہ اس کے پاس نقد رقم یا چاندی یا تجارتی اموال میں سے کچھ نہیں تو صرف ایک تولہ سونے پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر سونے کے ساتھ نقد رقم یاچاندی موجود ہواور سال بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت یا نقدی کے ساتھ ملانے سے چوں کہ مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے گی تو اس پر زکوٰۃواجب ہوجائے گی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقومًا بعشرة دراهم.وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:18، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا. وعند الشافعي لايضم أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:344، ط:سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرا ورواجا."
(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض،179/1،ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101411
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن