بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کی بددعا دینے کا حکم


سوال

ددھیال والوں سے ہماری بنتی نہیں تھی اور ہمارے چچا ہمارے ساتھ رہنے کسی وجہ سے آئے، ہم ان سے خوش نہیں تھے، ایک دوسال گزر گئے ،وہ اپنے گھر چلے، ہم ان کے بارے میں بات کر رہے تھے تو میں نے یقین کے ساتھ کہا: اللہ پر بھروسہ رکھو ان شاء اللہ وہ واپس نہیں آئے گا" لیکن وہ آگئے پھر کچھ عرصے بعد ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ فوت ہو گئے،کیا وہ میری کہی ہوئی یقینی بات سے فوت ہو گئے اور کیا کوئی کسی کو موت کی بد دعا دے وہ قبول ہوتی ہے ؟کیوں کہ سنا ہے موت اور شادی کی بد دعا قبول نہیں ہوتی۔

جواب

صورت  مسؤلہ میں  مذکورہ جملہ  بددعانہیں ،باقی کسی مسلمان کے لیے ناحق بد دعا کرنا  جائز نہیں ، بلکہ کسی کے حق میں کسی مصیبت کے آنے  کی آرزواور تمنا کرنا بھی جائز نہیں ، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ پاک سے خیر  اور عافیت کی دعا کرے، نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرے۔نیزہر ایک کی موت کا وقت بھی اللہ تعالٰی نے مقرر کردیا ہے ،جب کسی کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے لیے کسی چیز کو بھی ذریعہ بنا دیتے ہیں،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ موت اور شادی کی بددعا قبول نہیں ہوتی  اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

نیز کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيم}" [النساء: 148]

 أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله عز وجل: {لايحب الله الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم} قال ابن عباس وقتادة إلا أن يدعو على ظالمه."

(سورة النساء،365/2،ط:دار الكتب العلمي)

صحیح مسلم میں ہے: 

"سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بطن بواط، وهو يطلب المجدي بن عمرو الجهني، وكان الناضح يعتقبه منا الخمسة والستة والسبعة، فدارت عقبة رجل من الأنصار على ناضح له، فأناخه فركبه، ثم بعثه فتلدن عليه بعض التلدن، فقال له: شأ، لعنك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من هذا اللاعن بعيره؟» قال: أنا، يا رسول الله قال: «انزل عنه، فلا تصحبنا بملعون، لا تدعوا على أنفسكم، ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء، فيستجيب لكم."

(صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 3009، 2304/4، ط: دار احیاء التراث العربی)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"قال اللّٰه تعالى : {لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ}. قال القرطبيّ : الّذي يقتضيه ظاهر الآية أنّ للمظلوم أن ينتصر من ظالمه ، ولكن مع اقتصاد إن كان الظّالم مؤمناً ، كما قال الحسن ، وإن كان كافراً فأرسل لسانك وادع بما شئت من الهلكة وبكلّ دعاء ، كما فعل النّبيّ صلى الله عليه وسلم حيث قال : « اللّٰهمّ اشدد وطأتك على مضر . اللّٰهمّ اجعلها عليهم سنين كسني يوسف » .وقال : « اللّٰهمّ عليك بفلان وفلان سمّاهم .وإن كان مجاهراً بالظّلم دعا عليه جهراً ، ولم يكن له عرض محترم ، ولا بدن محترم ، ولا مال محترم . وقد روى أبو داود عن « عائشة قال : سرق لها شيء فجعلت تدعو عليه ، فقال النّبيّ صلى الله عليه وسلم : لا تسبّخي عنه » أي لا تخفّفي عنه العقوبة بدعائك عليه .قال النّوويّ: اعلم أن هذا الباب واسع جدًّا ، وقد تظاهر على جوازه نصوص الكتاب والسّنّة، وأفعال سلف الأمّة وخلفها ، وقد أخبر اللّٰه سبحانه وتعالى في مواضع كثيرة معلومة من القرآن عن الأنبياء صلوات اللّٰه وسلامه عليهم بدعائهم على الكفّار .وعن عليّ - رضي الله عنه - أنّ النّبيّ صلى الله عليه وسلم قال يوم الأحزاب : « ملأ اللّٰه قبورهم وبيوتهم ناراً كما حبسونا وشغلونا عن الصّلاة الوسطى »."

(21/ 276ط:وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں