بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ مدرسہ کو فروخت کرنا


سوال

میرے شوہر نے 1989ء میں ایک زمین مدرسہ کے نام وقف کردی اور 1997ء میں ان کا انتقال ہو گیا، پھر میں نے 2001ء میں اس جگہ مدرسہ قائم کیا اور آج تک چلا رہی ہوں، لیکن ا س دوران علاقے کے لوگوں کے فرقہ کی وجہ سے آج تک مدرسہ ترقی نہ کر سکا ،آۓ دن جھگڑے، تھانہ ،پولیس ہو جاتا ہے، کبھی مجھ سے اور کبھی میرے بیٹوں سے لڑائی ہو تی ہے اور علاقے والے چاہتے ہیں کہ یہ مدرسہ کسی طرح بند ہو جاۓ اور اس جگہ پارک یا ہسپتال یا کوئی رفاہی ادارہ بن جاۓ، میں چاہتی ہوں کہ یہ وقف زمین مدرسہ کے مفاد میں استعمال ہو جاۓ، لہذا مدرسہ کے مفاد کے لیےاگر میں اس زمین کو فروخت کر کے کسی اور علاقہ میں پانچ یا چھ  مدرسے بنالوں  اور الگ الگ علما ء کے حوالے کر دوں؛ تاکہ وقف زمین مدرسہ کے مفاد میں صحیح استعمال ہو جاۓ تو کیا یہ عمل درست ہے؟ یاد رہے اب مدرسہ میں صرف 30 بچے پڑھتے ہیں اور میں اب محلے کے لوگوں سے پریشان ہوں اور وقف زمین کے ضائع ہونے کا یقین ہے اور مدرسہ کا مفاد بھی باقی نہ رہے گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے اپنی زندگی میں جو زمین مدرسہ کے  لیے وقف کی تھی، جس پر سائلہ نے شوہر کی وفات کے بعد باقاعدہ مدرسہ قائم کردیا تھا، اس جگہ کو اب فروخت کرنا، خواہ کسی بھی مقصد کے  لیے ہو  جائز نہیں، لہذا سائلہ کو چاہیے کہ مذکورہ مدرسہ کا انتظام    بطورِ ناظر کسی قابلِ  اعتماد ادارہ   یا شخص کے سپرد کردے، تاکہ محلہ والوں کی  ریشہ دوانیوں سے خودبھی محفوظ رہے، اور مدرسہ کو بھی محفوظ رکھ سکے۔

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

" شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في وجوب العمل به."

( كتاب الوقف، ٢ / ٢٨٨، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لايجوز كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ٦ / ٣٦٢، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في استبدال الوقف وشروطه

(قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه:

الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا.

والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه.

والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال."

( كتاب الوقف، ٤ / ٣٨٤، ط: دار الفكر)

فتح القدير لابن همام میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث".

(  کتاب الوقف، ٦ / ٢٠٣، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية".

( کتاب الوقف،  ٢ / ٣٥٠، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں