بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منسوخی فیس، اور تاخیر کی وجہ سے کٹوتی کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں  کہ:

1۔کاروبار کے مالکان کے درمیان منافع کی 50-50 تقسیم پر اتفاق کیا گیا ہے، جس کے تحت ان دونوں کے کام کو جہاں تک ممکن ہو متوازن رکھا جائے گا، اگر ان میں سے ایک دوسرے سے زیادہ کام کرتا ہے تو کیا ہم پھر بھی 50-50 کو تقسیم کر سکتے ہیں، اگر دوسرے ساتھی کو کوئی اعتراض نہ ہو؟

2۔ طے شدہ سود (دیر سے ادائیگی پر سود) تقریباً ہر معاہدے میں شامل ہوتا ہے جس میں کوئی داخل ہوتا ہے، ایک کاروبار کے مالک کے طور پر، بعض اوقات معاہدے ہوتے ہیں، جو ہمیں کرنے پڑتے ہیں، ورنہ، کاروبار کو چلانا بہت مشکل ہو جائے گا، کیا ایسے حالات میں ایسے معاہدے کرنے کی اجازت ہے جب کوئی شخص ہمیشہ وقت پر ادائیگی کرنے کی یقین دہانی کرائے؟

3۔ منسوخی کی فیس: اگر منسوخی بہت تاخیر سے موصول ہوئی ہے تو کیا اسے صارفین سے منسوخی کی فیس وصول کرنے کی اجازت ہے (مثلاً روانگی سے 1 گھنٹہ پہلے)۔ اگرکلائنٹ کو اس طرح کی فیس لینے کی اجازت نہیں ہے تو، تاخیر سے منسوخی کے نتیجے میں اگر ہمیں مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا صورت حال ہوگی؟

4۔ بنیادی فیس: کیا اسے باقاعدہ گاہکوں کے ساتھ معاہدہ/معاہدہ کرنے کی اجازت ہے جو بنیادی فیس فراہم کرتا ہے، جس کے اندر صارفین کو رعایت ملتی ہے، مثال کے طور پر، صارف € 1000.00 کی بنیادی فیس  کمپنی کے پاس رکھواتا ہے اور اسے ادا کرے گا، بعض صورتوں میں وہ اسے ادا کرے گا، چاہے وہ کچھ معاملات میں کمپنی کی طرف سے ایک بھی سروس استعمال نہ کرے، مثلاً سست مہینوں(یعنی جن مہینوں  میں کام سست رہا) میں کیا یہ جائز ہوگا؟

تنقیحات:

جزء  1 میں قابل وضاحت امور:

1)مذکورہ کاروبار کس چیز کا ہے۔

2)کاروبار میں شرکاء  صرف طے شدہ  نفع   میں شریک ہے یا نقصان میں بھی شریک ہوں گے؟اس بارے میں کیا طے ہوا؟

جزء 2 میں قابل وضاحت امور:

1)طے شدہ سود سے کیا مراد ہے؟

2)کون سے معاملات میں اس طرح معاہدے کیے جاتے ہیں؟

جزء 3 میں قابل وضاحت امور:

1)کس چیز کی منسوخی مراد ہے ، گاڑی کی ٹکٹ منسوخ کرنا مراد ہے یا کس اور  چیز کی؟

2)ٹکٹ لیتے ہوئے ابتداء یہ طے کیا جاتا ہے کہ اگر ٹکٹ کینسل  کیا تو اس پر ٹکٹ سے کٹوتی ہوگی یا نہیں؟

جزء 4 میں قابل وضاحت امور:

1)صارف ابتداء کمپنی کے پاس جو بنیادی فیس کے نام سے رقم رکھواتا ہے وہ کس مد میں ہوتا ہے ؟

2)بنیادی فیس رکھوانے کی وجہ سے  رعایت کس کی طرف سے ملتی ہے؟

جواب تنقیح:

1: الف) یہ ایک کمپنی ہے، جو صارفین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی شٹل سروس پیش کرتی ہے ( جیسے: ٹیکسی)۔

ب) جی ہاں، ہم نے  طے کیا  ہے کہ ہم بھی اسی طرح نقصانات میں شریک ہوں گے (50-50)

2: الف) "پہلے سے طے شدہ سود" سے مراد یہ ہے کہ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں سود ادا کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر: اگر ہماری کمپنی ایک کار خریدتی ہے اور بیچنے والے کے ساتھ اس پر اتفاق ہوتا ہے، کہ ہمیں اسے 24 قسطوں میں ادا کرنا ہوگا - ہر ماہ ایک قسط۔ اب اگر ہم ایک ماہ کی ادائیگی نہیں کرتے اور ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں تو وہ ہم سے سود وصول کریں گے۔

ب) مثال کے طور پر کار خریدنے میں (جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے) یا موبائل فون کے معاہدوں میں، کلاؤڈ ٹیلی فون سروسز...

3: الف) جی ہاں، منسوخی کی فیس ٹکٹوں کو منسوخ کرنے کے لیے ہے۔

ب) جی ہاں، یہ گاہک کے ساتھ معاہدے کا حصہ ہے۔

4:الف) معاف کیجیے گا میں سوال میں لفظ "مد" نہیں سمجھا! اگر آپ کا مطلب ہے کہ مدت اس سے مختلف ہوتی ہے، کچھ 5 سال کچھ اور 10 سال... اس کے مطابق جس پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ب) ہم بطور کمپنی صارف کو رعایت دیتے ہیں۔ طریقہ کار درج ذیل ہے:

باقاعدہ صارفین کے پاس ہمارے ساتھ ایک مقررہ ماہانہ بنیادی فیس سے اتفاق کرنے کا اختیار ہے، وہ یہ ادائیگی کرتے ہیں اس سے قطع نظر کہ انہوں نے ہماری خدمات استعمال کی ہیں یا نہیں۔ بدلے میں، وہ سفر پر رعایت سمیت متعدد فوائد حاصل کرتے ہیں۔

مثال: کمپنی X ماہانہ €1000 کی مقررہ فیس سے اتفاق کرتی ہے۔ عام طور پر کمپنی X سے ہوائی اڈے تک کے سفر کی لاگت €120 ہوتی ہے، لیکن چونکہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک مقررہ بنیادی فیس کے ساتھ فریم ورک کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے، انہیں €100 میں ٹرپ ملتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ €1000 میں، کمپنی X اب 8 کے بجائے 10 ٹرپس لے سکتی ہے۔ تاہم، کمپنی X اس فیس کو ادا کرتی ہے چاہے اس نے اس مہینے کوئی ٹرپ نہ کیا ہو (مثلاً اگر کمپنی کم مصروف ہو)۔ ایسی صورت میں، ہمیں کمپنی کے لیے کوئی خدمات انجام دیے بغیر بھی €1000 موصول ہوتے۔ کیا اس کی اجازت ہے

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں جب منافع 50 ، 50 فیصد طے ہوا، اس کے بعد  اگر ایک شریک زیادہ کام کرتا ہے،اور اس کو اس پر اعتراض نہیں  تو تب بھی 50، 50 فیصد کے اعتبار سے منافع تقسیم کیے جاسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

2)ہر ایسا معاملہ جس میں پہلے سے یہ طے ہو  کہ اگر مقرر مدت تک ادائیگی نہیں کی تو تاخیر کی وجہ سے  اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی ، تو یہ سود ہونے کی  بنا پر جائز نہیں ، اور ابتداءً ایسا معاملہ کرنا ہی جائز نہیں ،چاہے یہ یقین دہانی ہو کہ مقرر مدت پر ادائیگی کردوں گا۔

3)گاڑی استعمال کرنے سے پہلے ٹکٹ کینسل کرانے پر منسوخی فیس یعنی ٹکٹ سے کٹوتی جائز نہیں  ہے۔

4)صورتِ مسئولہ میں کسی بھی کمپنی میں ایڈوانس فیس جمع کرکے خریداری کے وقت اس پر رعایت کا مل جانا سود ہے، لہذا اس طرح پیسے رکھ کر ڈسکاؤنٹ کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

1)بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء ‌شرطا ‌العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال، وإن كان المالان متساويين فشرطا لأحدهما فضلا على ربح ينظر إن ‌شرطا ‌العمل عليهما جميعا جاز، والربح بينهما على الشرط في قول أصحابنا الثلاثة."

 (كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:62، ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"وإن ‌شرطا ‌العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال...وإن ‌شرطا ‌العمل على أحدهما فإن شرطاه على الذي رأس ماله أقل؛ جاز، ويستحق قدر ربح ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على صاحب الأكثر لم يجز؛ لأن زيادة الربح في حق صاحب الأقل لا يقابلها مال ولا عمل ولا ضمان."

 (كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:63، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضعيته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية، ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط والوضيعة أبدًا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الشركة، الباب الثالث في شركة العنان، الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، ج:2، ص:320،  ط: دارالفكر)

2)تفسير القرطبي  میں ہے:

"(إنكم إذا مثلهم) أي إن الرضا بالمعصية معصية، ولهذا يؤاخذ الفاعل والراضي بعقوبة المعاصي حتى يهلكوا بأجمعهم. وهذه المماثلة ليست في جميع الصفات، ولكنه إلزام شبه بحكم الظاهر من المقارنة، كما قال:فكل قرين بالمقارن يقتدي."

(سورة النساء (4): الآيات 140 الى 141، ج:5، ص:418، ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)

فتاوی شامی  ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال...(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: ..وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. "

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:62، ط:سعيد)

عمدۃ القاری شرح البخاری میں ہے:

"وما نهى عنه الكتاب ونهت عنه السنة فهو غير داخل في ذلك. ألا ترى أن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، قال في حديث بريرة: (كل شرط ليس في كتاب الله تعالى فهو باطل، وإن كان مائة شرط)."

(كتاب المكاتب، باب ما قيل في العمراى والرقباى، ج:13، ص:180، ط:دار إحياء التراث العربي)

3)فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الدابة لا يكفي ‌التمكن لما في العمادية: استأجر دابة ليركبها إلى مكان معلوم فأمسكها في منزله في المصر لا يجب الأجر ويضمن لو هلك اهـ بحر ملخصا ومر تمامه."

(كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:6، ص:34، ط:سعيد)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(ومن استأجر دابة ليسافر عليها ثم بدا له من السفر فهو عذر) ؛ لأنه لو مضى على موجب العقد يلزمه ضرر زائد؛ لأنه ربما يذهب للحج فذهب وقته أو لطلب غريمه فحضر أو للتجارة فافتقر (وإن بدا للمكاري فليس ذلك بعذر) ؛ لأنه يمكنه أن يعقد ويبعث الدواب على يد تلميذه أو أجيره (ولو مرض المؤاجر فقعد فكذا الجواب) على رواية الأصل.وروى الكرخي عن أبي حنيفة أنه عذر؛ لأنه لا يعرى عن ضرر فيدفع عنه عند الضرورة دون الاختيار."

(‌‌كتاب الإجارات، باب فسخ الإجارة، ج:9، ص:148، ط:دار الفكر، لبنان)

4)فتاوی شامی میں ہے:

"   وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام."

(کتاب البیوع ،فصل في القرض ج:5، ص: 166، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة... (خال عن عوض بمعيار شرعي) مشروط لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة). "

(كتاب البيوع، باب الربا ، ج:5، ص: 168،  ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں