کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون تنسیخ نکاح ایکٹ 1962ء کے تحت فیملی کورٹ میں خاتون جج ہونا ضروری ہے، چونکہ فسخ نکاح اورخلع کے کیس فیملی کورٹ میں پیش کیے جاتے ہیں اور ہمارے بعض علماء کرام کے نزدیک اسلام منصب اقتداراورمنصب قضاء پرعورت کوبرداشت نہیں کرتا، ان سوالات کے جوابات دے کر تشفی فرمائیں۔1۔ کیا اسلامی شریعت میں عورت(خاتون) کوبطور جج منصب قضاء پر فائزکرناجائزہے؟2۔ اگرخاتون کوجج بنانا جائزنہیںتو فیملی کورٹ میں خواتین ججزکی طرف سے دئیے جانےوالے فسخ نکاح کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟۔ اگرخاتون کو جج بنانا جائزنہیں ہے تواس سےپہلے خاتون ججز فسخ نکاح اورخلع کے جو فیصلے دے چکی ہیں اوران خواتین نے انہی فیصلوں کی بنیاد پر دوسری شادیاں بھی کرلی ہیں ان فیصلوں اوران کےدوسرے نکاح کی شرعی حیثیت کیاہوگی؟4۔ اگرکوئی مردجج میسرنہ ہواورخانگی مسائل کے باعث طلاق لیے بغیرکوئی دوسراراستہ بھی نہ ہوتوخاتون فسخ نکاح کےلیے کیا طریقہ اختیارکرے؟
واضح رہے کہ عورت اپنی طبعی، عقلی اوردینی کمزوری کی بناء پرمنصب اقتدارکی اہل شمارنہیں ہوتی اورمنصب قضاء کی مکمل طورپر تفویض عورت کو درست نہیں، اس کے باوجوداگرعورت کومنصب قضاء تفویض کردیا جائےتوگوکہ شرعاً تفویض کنندگان گناہگار ہونگے لیکن حدودوقصاص کےعلاوہ باقی معاملات میں عورت کی قضاء اوراس کا فیصلہ معتبرہے، اس لیے کہ شرعاً ہروہ شخص جوشہادت کا اہل ہےوہ قضاء کابھی اہل ہے اورعورت ذات حدودوقصاص کے علاوہ دیگرامورمیں شہادت کی اہل ہے اس لیے قضاء کی بھی اہل ہے، اس تمہید کے بعد سائل کے دیگرسوالات حل ہوجاتے ہیں کہ عورت چونکہ قضاء کی فی الجملہ اہلیت رکھتی ہے اورشریعت اس کے کیے گئے فیصلوں کا اعتبار بھی کرتی ہے اس لیےفیملی کورٹ کے مختلف مسائل میں اگرخاتون جج شرعی ضوابط کے مطابق فیصلہ کرتی ہے تواس کا فیصلہ شرعاً معتبرہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143101200422
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن