بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منت / نذر ماننے کا حکم


سوال

منت ماننے کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور کیا منت ماننا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی طورپرمنت مانناجائز ہے اور منت کے  لازم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ :

   منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

  منت از قسم  عبادات میں سے کسی عبادت کی ماننا ضروری ہے ، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

  عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں۔ اسی طرح جو عبادت پہلے سے فرض ہے (مثلاً پنج وقتہ نماز، صاحبِ نصاب کے لیے زکاۃ، رمضان کا روزہ اور صاحبِ استطاعت کے لیے حج)، اس کی نذر ماننا بھی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ پہلے سے ہی فرض ہیں۔

اور منت کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے ہونے پر منت مانی جائے اور وہ کام ہو جائے تو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"( ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً".

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:82، ط:دار الكتب العلمية وغيرها)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں