بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منت ماننے کا طریقہ


سوال

منت ماننے کا طریقہ بتائیں؟

جواب

اوّلا ً تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ  نذر لازم اور منعقد ہونے کی چند مندرجہ ذیل شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعًا ضروری ہے:

1: نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی نذر صحیح نہیں۔

2: نذر صرف عبادت کےقبیل سے ہو ، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

3: عبادت ایسی ہو کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی نذر بھی صحیح نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں منت ماننے کا طریقہ یہ ہے کہ  مذکورہ شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ کے نام پر کسی فرض یا واجب عبادت کی جنس سے اتنے عمل کی نذر ماننا جس کو سرانجام دینا ممکن بھی ہو ،مثلاً  یوں کہے کہ اگر فلان کام ہوگیا تو اتنے روزے رکھوں گا، یااتنی رکعات نفل پڑھوں گا، حج یا عمرہ کروں گا وغیرہ۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسًا كالنذر بالمعاصي بأن يقول: لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانًا أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك، لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا نذر في معصية الله تعالى»، وقوله: عليه الصلاة والسلام: «من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه»، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، و وجوب فعل المعصية محال و كذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلًا و تركًا، و كذا لو قال: علي طلاق امرأتي؛ لأن الطلاق ليس بقربة فلايلزم بالنذر، وهل يقع الطلاق به؟ فيه كلام نذكره إن شاء الله تعالى.

(ومنها) أن يكون قربةً مقصودةً، فلايصح النذر بعيادة المرضى و تشييع الجنائز و الوضوء و الاغتسال و دخول المسجد و مسّ المصحف و الأذان و بناء الرباطات و المساجد و غير ذلك و إن كانت قربًا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة و يصح النذر بالصلاة و الصوم و الحج و العمرة و الإحرام بهما، و العتق و البدنة و الهدي و الاعتكاف و نحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة و قد قال النبي عليه الصلاة والسلام: «من نذر أن يطيع الله تعالى فليطعه»، و قال عليه الصلاة والسلام: «من نذر و سمى فعليه وفاؤه بما سمى»؛ إلا أنه خص منه المسمى الذي ليس بقربة أصلًا، و الذي ليس بقربة مقصودة فيجب العمل بعمومه فيما وراءه ومن مشايخنا من أصل في هذا أصلًا فقال: ما له أصل في الفروض يصح النذر به و لا شكّ أن ما سوى الاعتكاف من الصلاة و الصوم و غيرهما له أصل في الفروض، و الاعتكاف له أصل أيضًا في الفروض و هو الوقوف بعرفة، و ما لا أصل له في الفروض لايصح النذر به كعيادة المرضى وتشييع الجنازة و دخول المسجد و نحوها و علل بأن النذر إيجاب العبد فيعتبر بإيجاب الله تعالى."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:82، ط: دارالکتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307102262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں