ایک عورت نےاپنے شوہر کے بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد منت مانی کہ اگر میرا شوہر ٹھیک ہو جائے تو میں اس بچھڑے کو کسی مسکین کو صدقہ کر دوں گی، اب شوہر تو ٹھیک ہو گیا لیکن بچھڑا مر گیا اب کیا کریں؟متعین بچھڑا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر عورت نے متعین بچھڑے کو صدقہ کرنے کی منت (نذر) مانی تھی تو اس بچھڑے کے مرنے سے وہ منت (نذر) ساقط ہوگئی ہے؛ لہٰذا شوہر کے تندرست ہونے کے باوجود اب کوئی دوسرا بچھڑا یا اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر صحت کے شکرانے کے طور پر میاں بیوی حسب استطاعت کوئی بھی چیز اللہ کی راہ میں صدقہ کردیں تو یہ بڑے ثواب اور سعادت کی بات ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 325):
’’ (ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير.
(قوله: وإن فقيرا أجزأه ذلك) لأنها إنما تعينت بالشراء في حقه، حتى لو أوجب أضحية على نفسه بغير عينها فاشترى صحيحة ثم تعيبت عنده فضحى بها لا يسقط عنه الواجب لوجوب الكاملة عليه كالموسر زيلعي ... (قوله: فعلى الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر، غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذر، ولو معسرا لا شيء عليه أصلًا.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن