بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

منی اگر کپڑے پر لگ جائے تو اس کے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟


سوال

احتلام ہونے کی وجہ سے منی کپڑوں پر لگی تھی، کپڑے کو تین مرتبہ پانی سے دھویا، مگر اس سے اکڑ نہیں گئی کیا کپڑا پاک ہو گیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ منی ناپاک ہے، اور یہ اگر کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، اور اس کو پاک کرنے کے دو طریقہ ہیں :

۱۔   اگر رقیق یعنی نرم اور پتلی   ہوتو  اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہرمرتبہ نچوڑا بھی جائے، یہاں تک کہ اس کا اثر (چکناہٹ وغیرہ) زائل ہوجائے۔ دھوئے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔

۲۔  منی اگر گاڑھی ہو اور خشک ہوکر سوکھ جائے تو ایسی صورت میں اس کو کھرچ کر یعنی  رگڑکر اس کے  اثرات زائل کرنے  سے بھی  کپڑا پاک ہوجائے گا، اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کتب حدیث میں موجود ہے، اور یہ حکم غلیظ (گاڑھی)  منی کے ساتھ خاص ہے اور اگر منی کسی بیماری یا کسی اور  وجہ سے رقیق (پتلی) ہوگئی ہوتو دھونا ضروری ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر منی گاڑھی تھی، تو اس کواس قدر دھونا ضروری تھا کہ جس سے وہ زائل ہوجائے، اس صورت میں منی زائل ہونے کے بعد ہی کپڑا پاک ہوگا، اور اگر منی گاڑھی نہ تھی، یعنی دیکھنے سے محسوس نہ ہوئی تھی ، تو اس صورت میں اس کپڑے کو تین مرتبہ دھونے اور ہر مرتبہ بقدرِ طاقت کپڑے کو نچوڑنے سے وہ کپڑا پاک شمار ہوگا، اگر چہ اس صورت میں دھونے کے بعد کپڑے پر اس کا کڑک پن سا باقی ہو، تب بھی کپڑا پاک شمار ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

"(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولا يضر بقاء أثره (إن طهر رأس حشفة) كأن كان مستنجيا بماء ......(وإلا) يكن يابسا أو لا رأسها طاهرا (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دما عبيطا على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقا لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديدا أو مبطنافي الأصح.

وفي الرد:(قوله: بفرك) هو الحك باليد حتى يتفتت بحر. (قوله: ولا يضر بقاء أثره) أي: كبقائه بعد الغسل بحر. (قوله: إن طهر رأس حشفة) قيل هو مقيد أيضا بما إذا لم يسبقه مذي، فإن سبقه فلا يطهر إلا بالغسل. وعن هذا قال شمس الأئمة الحلواني: مسألة المني مشكلة؛ لأن كل فحل يمذي ثم يمني إلا أن يقال: إنه مغلوب بالمني مستهلك فيه فيجعل تبعا. اهـ. وهذا ظاهر، فإنه إذا كان كل فحل كذلك وقد طهره الشرع بالفرك يابسا يلزم أنه اعتبر مستهلكا للضرورة، بخلاف ما إذا بال فلم يستنج بالماء حتى أمنى لعدم الملجئ اهـ فتح .............(قوله: ولو دما عبيطا) بالعين المهملة: أي: طريا مغرب وقاموس أي: ولو كانت النجاسة دما عبيطا فإنها لا تطهر إلا بالغسل على المشهور لتصريحهم بأن طهارة الثوب بالفرك إنما هو في المني لا في غيره بحر، فما في المجتبى لو أصاب الثوب دم عبيط فيبس فحته طهر كالمني فشاذ نهر، وكذا ما في القهستاني عن النوازل أن الثوب يطهر عن العذرة الغليظة بالفرك قياسا على المني. اهـ. نعم لو خرج المني دما عبيطا فالظاهر طهارته بالفرك. (قوله: بلا فرق) أي: في فركه يابسا وغسله طريا (قوله: ومنيها) أي: المرأة كما صححه في الخانية...... «عن عائشة - رضي الله عنها - كنت أحك المني من ثوب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يصلي» ولا خفاء أنه كان من جماع؛ لأن الأنبياء لا تحتلم، فيلزم اختلاط مني المرأة به، فيدل على طهارة منيها بالفرك بالأثر لا بالإلحاق فتدبر."

(کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، ج:1، ص:312، 313، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں