ہم نے بہت سی کتب میں پڑھاہے کہ منی کو کھرچنے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ کیا فرماتے ہیں صرف کھرچنے سے کس صورت میں کپڑا پاک ہوگا؟ اس کو دھونے کی بالکل ضرورت نہیں پڑے گی یا پھر یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا؟
واضح رہے کہ منی کے کھرچنے سے پاک ہونے کا حکم منسوخ نہیں ہوا ہے، البتہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب منی گاڑھی ہو اور خشک ہوجائے تو اس کو کھرچ کر پاک کیا جاسکتا ہے، اور اگر منی پتلی اور رقیق ہو یا تر ہو تو اس صورت میں ازالۂ نجاست کے لیے صرف کھرچنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ اس کو دھونا ضروری ہوگا، اور آج کل کمزوری وغیرہ کی وجہ سے عموماًً منی پتلی اور رقیق ہوتی ہے، لہٰذا صرف کھرچنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ تین مرتبہ دھونا بھی ضروری ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں اس مسئلہ سے متعلق لکھا ہے:
"(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولا يضر بقاء أثره... (وإلا) يكن يابسا... (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دما عبيطا على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقا لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديدا أو مبطنا في الأصح (وبدن على الظاهر) من المذهب.
وفي حاشيتة: (قوله: ومنيها) أي: المرأة كما صححه في الخانية، وهو ظاهر الرواية عندنا كما في مختارات النوازل وجزم في السراج وغيره بخلافه ورجحه في الحلية بما حاصله: إن كلامهم متظافر على أن الاكتفاء بالفرك في المني استحسان بالأثر على خلاف القياس، فلا يلحق به إلا ما في معناه من كل وجه، والنص ورد في مني الرجل ومني المرأة ليس مثله لرقته وغلظ مني الرجل، والفرك إنما يؤثر زوال المفروك أو تقليله وذلك فيما له جرم، والرقيق المائع لا يحصل من فركه هذا الغرض فيدخل مني المرأة إذا كان غليظا ويخرج مني الرجل إذا كان رقيقا لعارض اهـ أقول: وقد يؤيد ما صححه في الخانية بما صح «عن عائشة - رضي الله عنها - كنت أحك المني من ثوب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يصلي» ولا خفاء أنه كان من جماع؛ لأن الأنبياء لا تحتلم، فيلزم اختلاط مني المرأة به، فيدل على طهارة منيها بالفرك بالأثر لا بالإلحاق فتدبر."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج: 1، ص: 312 - 313، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144403101346
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن