بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی توڑنے پر جرمانہ


سوال

 میری منگنی ہوئی تھی جوکہ تقریبًا 2 سال رہی اور 2 سال تک ہمارے دونوں گھر ٹھیک ہی  رہے، پھر ہم نےدوسری جگہ چھوٹے بھائی کی منگنی کی،  تو اس کے بعد پھر میرے سسرال والوں کی طرف سے معاملات خراب ہونے لگے اور لڑکی نے مجھے کافی لعن طعن کیا، جیسے کہ تیری شکل پہ لعنت، جہنم میں جاؤ وغیرہ اور میری والدہ کی عزت وغیرہ کرنا بھی چھوڑ دی، تو یہ بات ان کے والدین کو بتائی جس پہ وہ کہنے لگےکہ لڑکی ہم نے آپ کو دی ہے، آپ جو چاہیں کریں ۔ان ہی باتوں میں کافی وقت گزرا، مگر وہ نہیں بیٹھے بات کرنے  کے لیے اور ایک پروگرام میں لڑکی کے مامو ں میرے والد سے ملے اور انہیں کہا کہ آپ اپنے گھر میں مار پیٹ کرو اور مناؤ ان کو شادی  کے لیے اور ہم اپنے گھر والوں کو مناتے ہیں۔  اور میں نے لڑکی کے والد کو میسج کیا کہ یہ شادی زبردستی مت کروائیں، ابھی اتنا کوئی نقصان نہیں ہوا، شادی کے بعد اگر یہی معاملات رہے تو بہت نقصان کا اندیشہ ہے، اس  لیے اس منگنی کو یہی ختم کردیں۔ تو ابھی 2 دن پہلے جرگہ بیٹھا اور جرگہ میں یہ کہا گیا کہ لڑکے نے پہلے منگنی سے انکار کردیا اور اس نے لڑکی کے ابو کو میسج کر کے ان کی عزت خراب کی ہے، صرف ان دو باتوں کی وجہ سے مجھ پہ "ساڑھے تین تولہ سونا" جرمانہ لگا دیا ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ یہ جرمانہ جائز ہے کیا ؟مجھ پہ صرف ایک میسج کی وجہ سے جس میں میں نے منگنی توڑنے کا مشورہ دیا لڑکی کے والد کو ۔برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں !

جواب

منگنی کی حیثیت شرعاً محض نکاح کا وعدہ ہے،کسی معقول عذر کے بغیر وعدہ کی خلاف ورزی گناہ اور ناجائز ہے، البتہ کسی معقول عذر کی بنا پر منگنی توڑنے کی شرعاً گنجائش ہے، لیکن  منگنی توڑنے پرکوئی جرمانہ عائد کرنا شرعاًہرگز جائز نہیں ہے، لہذا  صورتِ مسئولہ  میں لڑکی  والوں  کی طرف سے لڑکے پر منگنی توڑنے کی بنا  پر ساڑھے تین تولہ سونے کا جرمانہ عائد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي حرۃ الرقاشي، عن عمه رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه."
ترجمہ : ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : خبردار !کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار! کسی آدمی کی ملکیت کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے ۔

[118ص،6باب الغصب والعاریۃ، الفصل ،ط: المکتبۃ الأشرفیہ]

فتاوی شامی میں ہے :

"و كذا أنا متزوجك أو جئتك خاطبًا لعدم جريان المساومة في النكاح أو هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، و إن للوعد فوعد.

 لو قال: هل أعطيتنيها؟ فقال: أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، و إن كان للعقد فنكاح."

[11ص،3ج،کتاب النکاح،ط:سعيد]

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں