بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی توڑنے پر تاوان لینے کا حکم


سوال

 اگر لڑکے والے بغیر کسی عذ ر کے لڑکی کے ساتھ منگنی توڑنا چاہیں تو کیا ان سے تاوان لینا جائز ہے؟لڑکی والے شادی کی مکمل تیاری کر چکے ہیں اور اس پر کافی معقول رقم خرچ کر چکے ہیں۔

جواب

منگنی کی حیثیت شرعاً  نکاح کا وعدہ  ہے،کسی معقول عذر کے بغیر وعدہ کی خلاف ورزی گناہ اور ناجائز ہے، البتہ کسی معقول عذر کی بنا پر منگنی توڑنے کی شرعاً گنجائش ہے، لیکن  منگنی توڑنے پرکوئی جرمانہ عائد کرنا یا تاوان لینا شرعاًہرگز جائز نہیں ہے، لہذا  صورتِ مسئولہ  میں لڑکی  والوں  کی طرف سے لڑکے سے منگنی توڑنے کی بنا  پر تاوان لینا  شرعًا جائز نہیں ہے ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"عن أبي حرۃ الرقاشي، عن عمه رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه."

(باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی ،ج:2،ص:889،المکتب الاسلامی)

ترجمہ : "ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : خبردار !کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار! کسی آدمی کی ملکیت کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے ۔"

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"

 ( کتاب النکاح،ج:7،ص:110، دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في التعزير بأخذ المال

(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: و لايفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ"

(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:61،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں