بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد نکاح سے قبل میل جول سے پیدا ہونے والے بچے کی پرورش کا حکم


سوال

لڑکی لڑکے کی منگنی ہوئی اور انہوں نے قبل النکاح میل جول کر لیا، جس سے بچہ پیدا ہو گیا،کسی عورت نے وہ بچہ گود لے لیا اور اب اس عورت کو طعنے مل رہے ہیں کہ تم ناجائز بچے کی پرورش کررہی ہو، کیا وہ پرورش جاری رکھے یا بچہ اس کے ان ورثاء کو لوٹاۓ جن سے یہ پیدا ہوا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ منگنی کے بعد نکاح سے قبل میل جول   شرعا حرام اور  زنا  ہے ، نکاح سے پہلے حمل ٹھہرنے  کے بعد زانی سے  نکاح کرنے کی صورت میں اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر  نکاح کے بعد  چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الز نا ہی کہلائے گا، البتہ اس صورت میں  اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا،لیکن اگر وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے تو اس صورت میں نسب ثابت نہیں ہوگا ،اس کی نسبت والدہ کی طرف ہوگی، اور اس کی پرورش بھی ماں کے ذمہ ہوگی۔

 بچہ ثابت النسب  ہونے کی صورت میں بچے کی پرورش کی ذمہ داری اس کے والد  کے ذمہ ہے ، بچہ ان کے والدین کے حوالہ کردیا جائے  ،البتہ والدین اپنی خوشی سے کسی کو بچہ پالنے کے لیے دیتے ہیں تو اس میں شرعا کوئی مضائقہ نہیں ،اسی طرح    جس صورت میں بچہ کا  نسب ثابت نہیں ہے ،اس صورت میں بھی اگر کوئی شخص اس  بچے کو پالتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

فتاوی شامی  میں ہے :

"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.

و في الرد: (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن."

 ( كتاب النكاح ، 3/ 49 ط:سعید )

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو زنى بامرأة فحملت، ثم تزوجها فولدت إن جاءت به لستة أشهر فصاعدا ثبت نسبه، وإن جاءت به لأقل من ستة أشهر لم يثبت نسبه إلا أن يدعيه ولم يقل: إنه من الزنا أما إن قال: إنه مني من الزنا فلا يثبت نسبه ولا يرث منه كذا في الينابيع."

(كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب:1/ 540 ط : دار الفكر)

وفيه أيضا:

"إذا زنى رجل بامرأة فجاءت بولد فادعاه الزاني لم يثبت نسبه منه، وأما المرأة فيثبت نسبه منها."

 (كتاب الدعوى،الباب الرابع عشر،الفصل السابع، 4/ 127 ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں