بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد نکاح اور رخصتی میں تاخیر کرنا


سوال

 اگر رخصتی ایک سال بعد کرنی ہو تو ایک سال پہلے منگنی ( جسے بات پکّی ہونا یا نکاح کرنے کا وعدہ بھی کہ سکتے ہیں ) کرلی جائے یا پھر نکاح کرلیا جائے؟ دونوں میں سےشرعی اعتبار سے کیا بہتر ہے ؟ اور موجودہ ماحول کے اعتبار سے علماء کی کیا راۓ ہے ؟

نیز یہ بھی بتاںٔیں کے منگنی کی اسلام میں کیا حیثیت ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ رشتہ طے ہوجانے کے بعد بلاکسی معقول وجہ نکاح اور رخصتی(دونوں )  میں تاخیر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، حتی الامکان جلداز جلد نکاح کرکے  رخصتی کردینی چاہیے؛ کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد  جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں  (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب بات پکی ہوجائے تو  اولا نکاح کردیا جائے اور پھر جتنا جلد ممکن ہو    رخصتی کردی جائے ،منگنی کے بعد بلا عذر  ایک سال تک  نکاح اور رخصتی کو مؤخر کرنا  مناسب نہیں ہے،بعض اوقات اسی دوران حالات صحیح نہیں رہتے، خصوصاً موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے۔  حضرت  علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

" رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:  اے علی!  تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو : نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب حاضر ہو ، اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا ہم پلہ رشتہ مل جائے"۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ :  

" آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے  جس کی امانت داری اور اچھےاخلاق سے تم رضامند ہو تو نکاح کردیا کرو وہ  کوئی  بھی ہو؛  اس لیے کہ  اگر تم ایسا نہیں کروگے  تو  زمین میں فساد پیداہوجائے گا“۔

2۔منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہوتی ہے اور منگنی کا مقصد مستقبل میں ہونے والے نکاح کے عقد کو پختہ کرنا ہوتا ہے، کبھی کبھار اس مجلس میں نکاح کے لیے ابتدائی اور ضروری امور مثلاً: مہر وغیرہ بھی طے کر لیے جاتے ہیں، لیکن اگر اس مجلس کے انعقاد کا مقصد منگنی ہو، نہ کہ نکاح، تو اس صورت میں اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئًا".

 (1 / 320، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ابواب الصلوٰۃ، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

مصنف عبد الرزاق  میں ہے:

"عن يحيى بن أبي كثير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا جاءكم من ترضون أمانته وخلقه فأنكحوه كائنًا من كان، فإن لاتفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير»، أو قال: «عريض»".

 (6/ 152، کتاب النکاح، باب الاکفاء، رقم الحدیث:10325، ط:المجلس العلمی ، الھند) 

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح،جلد:3، صفحہ: 11، ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’منگنی کی جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں وہ صرف رشتہ اور ناطہ مقرر کرنے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ اس میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ وعدہ کی حد تک رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ منگنی کی مجلس کے بعد فریقین بھی اس کو نکاح قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے بعد نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے اور نکاح پڑھایا جاتا ہے اس لئے ان مجالس کے الفاظ میں عرف یہی ہے کہ وہ بقصد وعدہ کہے جاتے ہیں نہ بقصد نکاح ۔ ورنہ نکاح کے بعد پھر مجلس نکاح منعقد کرنے کے لئے کوئی معنی نہیں ۔ نیز منگنی کی مجلس کے بعد منکوحہ سے اگر زوج تعلقات زن شوئی کا مطالبہ کرے تو کوئی بھی اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا بلکہ کہتے ہیں کہ نکاح تو ہوا ہی نہیں ۔ عورت کو مرد کے پاس کیسے بھیج دیا جائے،  بہر حال منگنی کی مجلس وعدے کی مجلس ہے اس کے الفاظ سب وعدہ پر محمول ہوں گے ۔ کیونکہ عرف یہی ہے ۔ لہذا اس کو نکاح قرار دینا درست نہیں، البتہ اگر منگنی کی مجلس میں صریح لفظ نکاح استعمال کیا جائے ۔ مثلا ً زوج یا اس کا ولی یوں کہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کر دو اور ولی زوجہ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تو نکاح ہوجائے گا ۔  لأن الصریح یفوق الدلالة.‘‘

(کتاب النکاح،ج:5،ص:49،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں