بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کی انگوٹھی واپس کرنے کا حکم، منگنی توڑنے کا گناہ


سوال

1)میری بیٹی کی منگنی ایک لڑکے سے ہوئی ،دو سال آٹھ ماہ یہ منگنی باقی رہی اب وہ لوگ یعنی لڑکے والے ہم سے مختلف مطالبے (ڈیمانڈ) کر رہے تھے اور ہم یعنی لڑکی والے ان کے مطالبے پورے نہیں کر پا رہے تھے  جس کی وجہ سے انہوں نے منگنی توڑ دی،  منگنی ہم نے نہیں توڑی،  بلکہ ہم تو شادی پر راضی تھے، لیکن انہوں نے مطابے پورے نہ ہونے کی وجہ سے منگنی توڑ دی۔  اب سوال یہ ہے کہ ہم نے لڑکے کو جو انگوٹھی منگنی کےموقعہ پر دی تھی اور منگنی کے موقع پر جو ہم نے اس کے علاوہ تقریبا 47 ہزار چار سو روپے  کا خرچہ کیا ہے، اس انگوٹھی اور کیے جانے والے خرچے کا واپس کرنا لڑکے والوں پر لازم ہے یا نہیں ؟

اورلڑکے والوں نے لڑکی جو انگوٹھی دی تھی منگنی کے موقع پر وہ ہم پر ان کو واپس کرنا لازم ہے یا نہیں ؟ یا وہ میری بیٹی کاحق ہے؟

2)میری بیٹی جو دو سال آٹھ ماہ تک اس لڑکے کے نام پر بیٹھی رہے اس عرصہ میں پتہ نہیں اس کے کتنے رشتے آجاتے اس کا کیا حکم ہے ؟ اس کا وبال لڑکے والوں پر ہوگا یا نہیں؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان درست ہے کہ یہ منگنی لڑکے والوں کے بے جا مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہسےتوڑ ی ہے تو ایسی صورت میں لڑکے والے لڑکی کو دی گئی انگوٹھی کا مطالبہ نہیں کر سکتے،البتہ جو انگوٹھی لڑکی والوں نے لڑکے کو دی تھی  اگر وہ موجود ہو تو لڑکی والوں کو یہ انگوٹھی واپس لینے کا حق حاصل ہوگا، اس کے علاوہلڑکی والوں نے منگنی کے وقت جو رقم خرچ کی ہے اس رقم کا مطالبہ لڑکی والے  لڑکے والوں سے نہیں کر سکتے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"اگر عورت کی طرف سے انکار ہو جائے تو لڑکے کو واپسی کا حق ہوتا ہے وہ بھی ان اشیاء کے متعلق جو باقی ہوں اور جو چیزیں ہلاک ہو گئیں ہوں ان کی واپسی کا حق نہیں اور صورتِ مسئولہ میں عورت کی طرف سے انکار کا ذکر نہیں  کیا گیا ، پس اگر لڑکی والے انکار کر چکے تھے تب تو ان اشیاء کو واپس لیا جا سکتا ہے جو کہ موجود ہوں اور جو ہلاک ہو گئیں ان کی واپسی نہیں ہو سکتی ، اور اگر لڑکی والوں نے انکار نہیں کیا تو ان سے کچھ واپس نہیں لیا  جا سکتا ہے۔"

(کتاب النکاح،باب المہر،ج:12،ص:125)

2) منگنی کی حیثیت نکاح کے وعدہ کی ہے اور بلا عذر وعدہ خلافی کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔لہذا اگر لڑکے والوں نے  کسی شرعی عذر کی وجہ سے مجبور ہو کر یہ قدم اٹھایا تب تو وہ گناہ گار نہیں ہوں گے اور اگر کسی شرعی عذر کے بغیر بے جا مطالبوں کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے منگنی توڑ دی تو وہ گناہ گارہوں گے ۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"منگنی یعنی شادی کرنے کا وعدہ اور قول و قرار اس پر دونوں جماعتوں کا قائم رہنا ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"وأوفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا"یعنی اور عہد (قول و قرار) پورے کرتے رہو، بے شک عہد کے متعلق پرسش ہونے والی ہے۔( سورۃ بنی اسرائیل )

لہذا کسی شرعی سبب کے بغیر قول و قرار سے پھر جانا اور دو سال تک امید دلا کر پھر انکار کردینا گناہ کا کام ہے، برادری کے ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ رشتہ کرنے کی پوری کو شش کریں، لیکن مجبور نہ کیا جائے کورٹ کا سہارا لینا اور خرچ  مانگنا غلط ہے ۔"

(متفرقات نکاح،ج:8،ص:248،ط:دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:   

"(خطب بنت رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما) فقط وإن تغير بالاستعمال (أو قيمته هالكا) لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد (وكذا) يسترد (ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك) لأنه في معنى الهبة.

(قوله: لأنه في معنى الهبة) أي والهلاك والاستهلاك مانع من الرجوع بها، وعبارة البزازية لأنه هبة اهـ ومقتضاه أنه يشترط في استرداد القائم القضاء أو الرضا، وكذا يشترط عدم ما يمنع من الرجوع، كما لو كان ثوبا فصبغته أو خالطته، ولم أر من صرح بشيء من غير ذلك فليرجع."

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب المهر،مطلب فيما يرسله إلى الزوجة3/ 153،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(أنفق) رجل (على معتدة الغير بشرط أن يتزوجها) بعد عدتها (إن تزوجته لا رجوع مطلقا، وإن أبت فله الرجوع إن كان دفع لها، وإن أكلت معه فلا مطلقًا) بحر عن العمادية.

(قوله: أنفق على معتدة الغير إلخ)...وأفتى به حيث سئل فيمن خطب امرأة وأنفق عليها وعلمت أنه ينفق ليتزوجها فتزوجت غيره، فأجاب بأنه يرجع واستشهد له بكلام قاضي خان المذكور وغيره وقال إنه ظاهر الوجه فلاينبغي أن يعدل عنه اهـ.

[تنبيه] أفاد ما في الخيرية حيث استشهد على مسألة المخطوبة بعبارة الخانية أن الخلاف الجاري هنا جار في مسألة المخطوبة المارة وأن ما مر فيها من أن له استرداد القائم دون الهالك والمستهلك خاص بالهدية دون النفقة والكسوة إذ لا شك أن المعتدة مخطوبة أيضا...وعلى هذا فما يقع في قرى دمشق من أن الرجل يخطب المرأة ويصير يكسوها ويهدي إليها في الأعياد ويعطيها دراهم للنفقة والمهر إلى أن يكمل لها المهر فيعقد عليها ليلة الزفاف، فإذا أبت أن تتزوجه ينبغي أن يرجع عليها بغير الهدية الهالكة على الأقوال الأربعة المارة لأن ذلك مشروط بالتزوج كما حققه قاضي خان فيما مر."

(أيضاً،مطلب أنفق على معتدة الغير3/ 154)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"الخلف في الوعد حرام،كذا في أضحية الذخيرة وفي القنية: وعده أن يأتيه فلم يأته لا يأثم ولا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا؛ كما في كفالة البزازية."

اس کے حاشیہ میں علامہ محمد علی الرافعی تحریر فرماتے ہیں:

"قوله:(وفي القنية وعده) والتوفيق بينه وبين الأول بحمل الأول على ما إذا وعد و في نيته الخلف فيحرم والثاني على ما إذا نوى الوفاء وعرض مانع."

(الفن الثاني،كتاب الحظر والإباحة،ص:159، ط:سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے: 

"«قال النووي: أجمعوا على أن من وعد إنسانا شيئا ليس بمنهي عنه فينبغي ‌أن ‌يفي بوعده، وهل ذلك واجب أو مستحب؟ فيه خلاف ; ذهب الشافعي وأبو حنيفة والجمهور إلى أنه مستحب، فلو تركه فاته الفضل وارتكب المكروه كراهة شديدة»."

(كتاب الآداب،باب المزاح7/ 3067،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں