بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد تاخیر کرنے کا حکم،لڑکی کا نکاح پندرہ سال کی عمر میں کرنے کا حکم؟


سوال

 میری عمر اٹھارہ سال ہے اور دو ماہ قبل میرا رشتہ طے ہوا جو کہ میری پسند سے میری کزن سے ہوا۔ مسلئہ بس یہ کہ ہمارے خاندان میں عموماً رشتہ طے ہونے کے چند ماہ بعد منگنی پھر تقریباً دو سال بعد لڑکی کی تعلیم پوری ہونے کے بعد شادی کی جاتی ہے لیکن مجھے یہ مناسب نہیں لگتا رشتہ ہونے کہ بعد اتنا لمبا وقفہ دینا اس سے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں ہمارے آپس میں بات کرنے کے خدشات ہیں (ابھی ہم بات نہیں کرتے) میں چاہتا ہوں کہ ابھی ہمارا نکاح ہو جائے اور رخصتی پھر دو سال بعد بھی ہو تو کوئی پریشانی نہیں اس سے محرم ہو جائیں گے اور گناہوں سے بچیں گے اس سلسلے میں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کیا یہ شرعی اعتبار سے ٹھیک ہے؟ اگر نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے اگر ہاں تو گھر والوں کو کیسے راضی کروں یا اگر کوئی اور آپ کی رائے ہے تو بتائیں۔ ابھی ہم نا ملتے ہیں نا ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں نا بات کرتے ہیں میری منگیتر کی عمر پندرہ سال ہے تو کیا اس عمر میں شرعاً اور قانوناً نکاح کرنا جائز ہوگا؟

جواب

۱۔واضح رہے کہ رشتہ طے ہوجانے کے بعد کسی معقول وجہ کے بغیر نکاح میں تاخیر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے،منگنی کے بعد نکاح میں بہت زیادہ تاخیر بسا اوقات   بہت سے  معاشرتی مفاسد کا پیش خیمہ بن جاتی ہے،حدیث شریف میں لڑکی کے ولی کواُس کےجوڑ کارشتہ مل جانے کےبعد  نکاح میں تاخیر کرنے سے منع کیا گیاہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں لڑکی کے گھر والوں کوچاہیے کہ اگر کوئی معقول وجہ نہ ہو تو نکاح میں تاخیر نہ کریں ،بلکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے نکاح کرادیں۔

۲۔واضح  رہے کہ اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعیّن و مقرّر  نہیں کی گئی ، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکےیا لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا شرعاً حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن کریم میں ہے: 

"وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ"[الطلاق: 4]

ترجمہ:” تمہاری (مطلقہ) بیبیوں میں جو عورتیں (بوجہ زیادت سن کے) حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں اگر تم کو (ان کی عدّت کی تعیین میں) شبہ ہو تو ان کی عدّت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عوتوں کو (اب تک بوجہ کم عمری کے) حیض نہیں آیا۔ “ (از بیان القرآن)

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدّت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح)  چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہےکہ اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالاتفصیل کی رو سے پندرہ سال کی عمر لڑکی کا نکاح کرنا شرعاًجائز ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا."

(ابواب الصلوۃ،باب ماجاء فی الوقت الأول من الفضل جلد 1 ص: 320 ط: شرکة مکتبة و مطبعة مصطفي البابي الحلبي ۔ مصر)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: «تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، وبنى بي ‌وأنا ‌بنت ‌تسع ‌سنين»."

(کتاب النکاح،باب تزویج الأب البکر الصغیرۃ جلد 2 ص : 1039 ط: داراحیاء التراث العربي)

ترجمہ : ”أم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نکاح کیا مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں چھ برس کی تھی اور زفاف کیا مجھ سے (رخصتی کے وقت)میں نو برس کی تھی۔“

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌واختلفوا ‌في ‌وقت ‌الدخول بالصغيرة فقيل لا يدخل بها ما لم تبلغ وقيل يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. وأكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال ولا يخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، وإن لم تبلغ تسع سنين، وإن كانت نحيفة مهزولة لا تطيق الجماع ويخاف عليها المرض لا يحل للزوج أن يدخل بها، وإن كبر سنها وهو الصحيح."

(کتاب النکاح،الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح جلد 1 ص: 287 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507102247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں