بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے وقت پیسے وغیرہ مانگنے کی رسم اور ان کا حکم


سوال

1)اگر لڑکا اور لڑکی کی صرف منگنی ہو ئی ہو ،نکاح نہ ہوا ہو ،تو کیا منگنی کے بعد دونوں کا آپس میں بات چیت کرنا جائز ہے؟

2)ہمارے ہاں رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکی کے گھر والے لڑکے کے گھر والوں سے سامان ،پیسے وغیرہ مانگتے ہیں ،شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟اور یہ بھی رواج ہے کہ لڑکے کے گھر والے لڑکی کے گھر والوں کو کچھ جانور مثلاً بیل ،گائے ،بکری مینڈہا وغیرہ دیتے ہیں تو کیا شرعاً یہ جائز ہے؟

3)ہمارے ہاں لڑکی کے لیے کوئی مستقل مہر مقرر نہیں ہوتا ہے ،اگر مہر مقرر بھی کر لیتے ہیں تو وہ باضابطہ لڑکی کی ملکیت میں نہیں دیا جاتا ہےشرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

4)اگر اس صورت میں کبھی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور لڑکی والے مہر کا مطالبہ کرتے ہیں تو  لڑکے والے کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو مال مویشی دیا جا چکا ہے بس وہی اس کا مہر ہے ،اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتیں ملاحظہ ہوں :

1)واضح رہے کہ منگنی  نکاح کا وعدہ ہے ،نکاح نہیں ہے ،اس سے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ بدستور اجنبیہ غیر محرم ہی رہتے ہیں ؛ لہذا منگنی کے بعد اپنی منگیترسے پردہ کے بغیر بلا ضرورت بات چیت کرنا  منع  ہے۔

2) شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے موقع پر بدل اور عوض کے طور پر اگر کسی چیز کو لازم قرار دیا ہے تو وہ صرف مہر ہے، جو کہ شرعاً بیوی کا حق ہے، شوہر پر مہر کی ادائیگی شرعاً ضروری ہوتی ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی کا مہر دس درہم سے کم یا سرے سے مہر ہی متعین نہیں کیا جائے تو بھی شوہر پر مہر  مثل  کی ادائیگی لازم ہے،مہر کی کم از کم مقدار شریعت نے دس درہم (30.618 گرام چاندی) مقرر کی ہے، زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت نے متعین نہیں کی، باہمی رضامندی سے مہر کی جو مقدار طے ہوجائے شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، البتہ شریعت نے مہر میں بہت زیادہ زیادتی کرنے کو ناپسند فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم پڑے، مہر میں سہولت ملحوظ رکھنے کو شریعت نے اس لیے پسند فرمایا تاکہ معاشرہ بے حیائی اور فحاشی سے محفوظ رہے اور ضرورتِ انسانی پورا کرنے کا حلال راستہ نوجوانوں کے لیے آسان سے آسان تر رہے، مہر کے علاوہ کسی قسم کی  رقم نکاح کے موقع پر شریعت نے لازم نہیں کی ہے۔

3)مہر عورت کا حق ہے وہی اس کی مالک ہوتی ہے ،اس کی اجازت  کےبغیر باپ یا خاندان والوں کا اس کو خرچ کرنا یا اس پر قبضہ جما لینا جائز نہیں ہے۔

4)نیز وہ عورت جس کا مہر مقرر ہوا ہو اور رخصتی بھی ہو گئی ہو تو اس صورت میں اس کے شوہر پر مقرر شدہ مہر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے،اور نکاح کے بعد رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی تو اس صورت میں مقرر شدہ مہر کے نصف کی ادائیگی شوہر پر لازم ہو جا تی ہے ،اگر مہر مقرر ہی نہیں ہوا اور رخصتی کے بعد طلاق دے دی تو اس صورت میں شوہر پر  مہر مثل کی ادائیگی لازم ہے ،اور اگرنکاح کے بعد رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی تو اس صورت میں شوہر پر متعہ دینا واجب ہے ۔

5)ہر لڑکی کا مہر مثل وہ مہر ہوتا ہے جواس کے  والد کے خاندان کی  مماثل لڑکیوں  کا مہر ہو،اگروالد  کے خاندان میں کوئی اس کے مماثل لڑکی نہ ہو تو ان مماثل  لڑکیوں  کا مہر ہو گا جو والد کے خاندان کے مماثل خاندان کی ہوں ۔

6)متعہ سے مراد یہ ہے کہ شوہر  کی استطاعت اور مطلقہ کی حیثیت کے مطابق اس  کو ایک جوڑا  دے دے،جوڑے سے مراد وہ ہے جو عام طور پر عورتیں باہر نکلتے وقت پہنتی ہیں یعنی شلوار ،قمیص،دوپٹہ اورپردے کے لیے ايك بڑی چادریابرقعہ وغیرہ ،البتہ اس کی قیمت نصف مہر مثل سے زیادہ نہ ہو اور پانچ درہم (15.309 گرام چاندی)سے کم نہ ہو  ۔

اب سوالات کے جوابات یہ ہیں:

1)صورتِ  مسئولہ میں چوں کہ  منگنی کے بعد بھی دونوں ایک دوسرے کے  لیے اجنبی ہیں ،لہذا آپس میں پردہ کے بغیر بلا ضرورت  بات چیت کرنا منع ہے۔

2) لڑکی والوں کا لڑکے والوں سے سامان و غیرہ مانگنا یا لڑکے والوں کا لڑکی والوں کو کچھ مال مویشی وغیرہ دینا شریعت میں  اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ،یہ محض رسم و رواج  ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔

3)مہر مقرر نہ کرنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،البتہ اس صورت میں   مہر مثل کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی،نیز مہر عورت ہی کا حق ہے ،اسی کو دینا ضروری ہے۔

4) یہ اشیاء بطور مہر کے نہیں دی جاتی ہیں ،بلکہ بطور ہبہ  اور گفٹ کے دی جاتی ہے ،لہذا ان اشیاء کو مہر میں شمار کرنا درست نہیں ہے ،بلکہ مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے،البتہ اگر ابتدا  ہی سے یہ اشیاء بطور مہر کے دے دی جائیں تو پھر یہ مہر ہی شمار ہوں گیں ،بقیہ تفصیل تمہید میں گزر چکی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) تجب (متعة لمفوضة) وهي من زوجت بلا مهر (طلقت قبل الوطء،وهي ‌درع وخمار وملحفة لا تزيد على نصفه) أي نصف مهر المثل لو الزوج غنيا (ولا تنقص عن خمسة دراهم) لو فقيرا،(وتعتبر) المتعة (بحالهما) كالنفقة به يفتى(وتستحب المتعة لمن سواها)

وفي الرد :

(قوله وهي ‌درع إلخ) الدرع: بكسر المهملة ما تلبسه المرأة فوق القميص كما في المغرب، ولم يذكره في الذخيرة وإنما ذكر القميص وهو الظاهر بحر.وأقول: ‌درع المرأة قميصها والجمع أدرع، وعليه جرى العيني، وعزاه في البناية لابن الأثير، فكونه في الذخيرة لم يذكره مبني على تفسير المغرب والخمار: ما تغطي به المرأة رأسها. والملحفة: بكسر الميم ما تلتحف به المرأة من قرنها إلى قدمها. قال فخر الإسلام، هذا في ديارهم، أما في ديارنا فيزاد على هذا إزار ومكعب كذا في الدراية ولا يخفى إغناء الملحفة عن الإزار، إذ هي بهذا التفسير إزار إلا أن يتعارف تغايرهما كما في مكة المشرفة، ولو دفع قيمتها أجبرت على القبول كما في البدائع نهر وما ذكر من الأثواب الثلاثة أدنى المتعة شرنبلالية عن الكمال. وفي البدائع وأدنى ما تكتسي به المرأة وتسر به عند الخروج ثلاثة أثواب. اهـ.قلت: ومقتضى هذا مع ما مر عن فخر الإسلام من أن هذا في ديارهم إلخ أن يعتبر عرف كل بلدة لأهلها فيما تكتسي به المرأة عند الخروج تأمل.ثم رأيت بعض المحشين قال: وفي البرجندي قالوا: هذه في ديارهم: أما في ديارنا فينبغي أن يجب أكثر من ذلك لأن النساء في ديارنا تلبس أكثر من ثلاثة أثواب فيزداد على ذلك إزار ومكعب. اهـ. وفي القاموس: المكعب الموشى من البرود والأثواب اهـ. أي المنقوش(قوله لا تزيد على نصفه إلخ) في الفتح عن الأصل والمبسوط: المتعة لا تزيدعلى نصف مهر المثل لأنها خلفه، فإن كانا سواء فالواجب المتعة لأنها الفريضة بالكتاب العزيز، وإن كان النصف أقل منها فالواجب الأقل إلا أن ينقص خمسة فيكمل لها الخمسة. اهـ. وقول الشارح أولا: لو الزوج غنيا، وثانيا لو فقيرا لم يظهر لي من وجهه بل الظاهر أنه مبني على القول باعتبار حال الزوج في المتعة، وهو خلاف ما بعده فليتأمل (قوله وتعتبر المتعة بحالهما) أي فإن كانا غنيين فلها الأعلى من الثياب، أو فقيرين فالأدنى، أو مختلفين فالوسط وما ذكره قول الخصاف، وفي الفتح: إنه الأشبه بالفقه. والكرخي: اعتبر حالها واختاره القدوري والإمام السرخسي اعتبر وصححه في الهداية.قال في البحر: فقد اختلف الترجيح، والأرجح قول الخصاف لأن الولوالجي صححه وقال عليه الفتوى كما أفتوا به في النفقة، وظاهر كلامهم أن ملاحظة الأمرين، أي أنها لا تزاد على نصف مهر المثل ولا تنقص عن خمسة دراهم معتبرة على جميع الأقوال كما هو صريح الأصل والمبسوط. اهـ"

(رد المحتار،کتاب الطلاق ،باب المہر ،مطلب فی احکام المتعہ،ج:3،ص:111،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ‌ولا ‌يكلم ‌الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى۔"

(رد المحتار،کتاب الحظر و الاباحۃ،ج:6،ص:369،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) الحرة (مهر مثلها) الشرعي (مهر مثلها) اللغوي: أي مهر امرأة تماثلها (من قوم أبيها) لا أمها إن لم تكن من قومه كبنت عمه. وفي الخلاصة: يعتبر بأخواتها وعماتها، فإن لم يكن فبنت الشقيقة وبنت العم انتهى ومفاده اعتبار الترتيب فليحفظ،وتعتبر المماثلة في الأوصاف (وقت العقد سنا وجمالا ومالا وبلدا وعصرا وعقلا ودينا وبكارة وثيوبة وعفة وعلما وأدبا وكمال خلق) وعدم ولد. ويعتبر حال الزوج أيضا، ذكره الكمال۔۔۔(فإن لم يوجد من قبيلة أبيها فمن الأجانب) أي فمن قبيلة تماثل قبيلة أبيها۔"

(رد المحتار ،کتاب الطلاق ،باب المہر،ج:3،ص:137،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

" ليس للمهر حد أقصى بالاتفاق ؛ لأنه لم يرد في الشرع ما يدل على تحديده بحد أعلى۔۔۔لكن يسن تخفيف الصداق وعدم المغالاة في المهور، لقوله صلى الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة   وفي رواية  إن أعظم النساء بركة أيسرهن صداقا  وروى أبو داود وصححه الحاكم عن عقبة بن عامر حديث: خير الصداق أيسره والحكمة من منع المغالاة في المهور واضحة وهي تيسير الزواج للشباب، حتى لا ينصرفوا عنه، فتقع مفاسد خلقية واجتماعية متعددة، وقد ورد في خطاب عمر السابق: وإن الرجل ليغلي بصدقة امرأته حتى يكون لها عداوة في قلبه.‌‌أقل المهر: أما الحد الأدنى للمهر فمختلف فيه على آراء ثلاثة: قال الحنفية : أقل المهر عشرة دراهم، لحديث:  لا مهر أقل من عشرة دراهم۔"

(القسم السادس: الاحوال الشخصیہ، الباب الاول: الزواج و آثارہ، الفصل السادس: آثار الزواج، ج: 9، ص: 6764، ط: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں