بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے موقع پرایجاب وقبول کرنے اور مہر مقررکرنے سے نکاح منعقد ہونے کا حکم


سوال

 ایک شخص نے اپنی عاقل بالغ لڑکی کا رشتہ اپنے قریبی رشتہ دار لڑکے سے باقاعدہ طے کیا،اس موقع پر خاندان کے کثیر تعداد بزرگ اور تمام لوگ موجود تھے،باقاعدہ مہر کی رقم مقرر کی اور ایجاب وقبول ہوا،مٹھائی تقسیم ہوئی اور خوشی منائی گئی،جس سے باقاعدہ رشتے کا ماحول بنا،صرف عربی خطبہ نہیں پڑھاگیاتھااور یہ منگنی کے موقع پر ہواتھا،لڑکے کی طرف سے اس کے والد بطورِ وکیل موجود تھےاور لڑکی کی طرف سے اس کے والد وکیل تھے ،اور لڑکی مجلس میں موجود تھی،جب کہ لڑکا موجود نہ تھااور یہ سب لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے ہواتھا،اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر بعد میں اس رشتے کو یہ کہہ کر ختم کردیاجائے  کہ نکاح نہیں ہوا،تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟اور ایجاب وقبول اس طرح ہوا تھاکہ لڑکی کے والد نے لڑکی کے ماموں سے کہا کہ ہماری طرف سے تم وکیل ہوتواس نے پوچھا کہ کس چیز کا وکیل ؟تو لڑکی کے والد نے کہا کہ اس رشتہ کروانے کا،تو اس نے کہا کہ دو آدمی جاکر لڑکی سے اجازت لے لیں،تو لڑکی کے والد نے کہا کہ میں لڑکی سےاجازت لے چکاہوں،تو اس نے لڑکی کے والد سے کہا کہ تم نے اپنی بیٹی فلاں دو لاکھ روپے مہر کے عوض فلاں کے بیٹے فلاں کو دی تو اس نے کہا کہ دی،اس کے بعد لڑکے کے باپ سے پوچھاکہ تم نے دو لاکھ مہر کے عوض فلاں کی بیٹی اپنے بیٹے کے لیے قبول کی تو اس نے کہا کہ قبول کی ۔

1:اگر اس صورتِ مذکورہ میں نکاح ہوچکا ہے ،کیوں کہ ایجاب وقبول اور مہر مقرر کیا گیا تھااور اب اس کو ختم کرنا چاہیں تو شرعی صورت کیا ہوگی؟کیا اس رشتے کو یہ کہہ کر ختم کرسکتے ہیں کہ نکاح نہیں ہواتھا؟ا ور مہر کی ادائیگی ہوگی یا نہیں ؟اگر ہوگی تو کیا صورت ہوگی؟

2:صورتِ مذکورہ میں اگر بغیر کسی شرعی مسئلے کا خیال کیے فقط اپنی مرضی سے ختم کیا جائے اور حکمِ شرعی کو نظرانداز کیا جائے تو اس صورت میں دیگر مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگاکہ وہ طے شدہ رشتے میں شریک کیا گواہ بن سکتے ہیں کہ نہیں؟ اگر بن گئے تو ان کا شرعی حکم کیا ہوگا؟شرعی راہنمائی فرمادیں۔

جواب

1:واضح رہے کہ منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہوتی ہے اور منگنی کا مقصد مستقبل میں ہونے والے نکاح کے عقد کو پختہ کرنا ہوتا ہے، کبھی کبھار اس مجلس میں نکاح کے لیے ابتدائی اور ضروری امور مثلاً: مہر وغیرہ بھی طے کر لیے جاتے ہیں، منگنی کے لیے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا، اگر اس موقع پر تبرک کے لیے خطبہ پڑھ کر لڑکی اور لڑکے کے ولی ایجاب و قبول بھی کرلیں تو اس کی گنجائش ہے،لہذا اگر کسی مجلس کے انعقاد کا مقصد منگنی ہوتو اس صورت میں مہر ذکر کرنے اور ایجاب وقبول کرنے کے باوجود بھی اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی اور اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگااور اس کے ختم کرنے پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی اور چوں کہ منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہے  اور شریعت کا حکم وعدہ کے سلسلے میں یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے، تاہم شدید مجبوری کی صورت میں اس کے خلاف کرنے کی گنجائش ہے، لہذا شدید شرعی مجبوری کی وجہ سے منگنی ختم کرنے کی گنجائش ہے، لیکن شدیدعذر کے بغیر منگنی ختم کرنا باعثِ گناہ ہے، البتہ لڑکے اور لڑکی کی اجازت کے بغیر گھر والوں کو منگنی ختم کرنے کی اجازت نہیں.

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب یہ مجلس منگنی کے لیے منعقد کی گئی تھی ،تو اس میں مہر ذکرکرنے اور ایجاب وقبول کرنے سے شرعی نکاح منعقد نہیں ہوگا،بلکہ اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی،لہذا اس کے ختم کرنے پر مہر لازم نہیں ہوگااور منگنی ختم کرنے کے لیے طلاق کے الفاظ استعمال کرنا ضروری نہیں، صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہم نے منگنی ختم کردی ہے۔

2:صورتِ مسئولہ میں جب منگنی کی مجلس تھی ،نکاح کی مجلس نہیں تھی اور نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تو اس مجلس میں شریک لوگ نکاح کے گواہ بھی نہیں بن سکتے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح،11/3،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں