بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد منگیتر سے بات کرنے کا حکم


سوال

اپنی منگیتر کے ساتھ بات کرنےسے اگر انسان کا دھیان دوسرے گناہوں کی طرف نہیں جاتا  ہو جیسا کہ م۔ش۔ت۔ز۔ن۔ی یا اور گناہوں سے بچتا ہو تو کیا بات کر سکتے ہے؟

جواب

ہمارے معاشرے کا  المیہ   یہ ہے کہ  منگنی ایک طویل  عرصہ تک قائم  رہتی ہے، اور منگیتر  منگنی کے بعد ایک دوسرے سے  ملتے جلتے  اور بات چیت کرتے رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی قباحت  محسوس نہیں کرتے، بلکہ ان کے خاندان والے بھی اس کو عار نہیں سمجھتے، حالانکہ شرعاً یہ بالکل ناجائز ہے۔ کیوں کہ منگنی کے بعد جب تک نکاح نہیں ہو جاتا اس وقت تک  دونوں منگیتر ایک دوسرے کے لئے   اجنبی  کے حکم میں  ہوتے ہیں،  پس جس طرح سے کسی اجنبیہ خاتون سے بات چیت، ہنسی مذاق  کرنا جائز نہیں، اسی طرح سے  نکاح سے قبل منگیتر سے بھی بات چیت جائز نہیں، بلکہ منگیتر سے بات چیت ، ہنسی مذاق عام اجنبیہ خاتون سے بات چیت سے زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ منگنی کی وجہ سے حیاء کا دامن عموما حائل نہیں رہتا، اور آج کل کے ماحول میں  اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا،  جس کے سبب بات چیت  متعدد گناہوں کا باعث بن جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات منگنی ختم ہونے کا باعث بھی ہوتی ہے، لہذا  بہتر اور سمجھ داری کی راہ یہی  ہے کہ منگنی کے بعد نکاح اور رخصتی میں تاخیر نہ کی جائے، البتہ   جب تک نکاح نہ ہوجائے دونوں منگیتروں کے لیے   ایک دوسرے سے بات چیت کرنا  شرعا جائز  نہیں ، خواہ دل میں کسی گناہ کا خیال آئے یا نہ آئے پس  آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت جاری رکھنا گناہ ہوگا،    جس سے اجتناب   نہایت ضروری ہے، اور اب تک جو کچھ ہوا اس پر سچے دل سے فوری توبہ کرنا دونوں پر لازم ہوگا۔

فتاوی شامی    میں ہے:

"ولايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا. انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لايشمّتها، ولايرد السلام بلسانه. قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً ردّ الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً ردّ عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس. اهـ

وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح ومر الكلام فيه فراجعه."

( كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ٦ / ٣٦٩، ط: دار الفكر )

فقه السنة لسيد سابق" میں ہے:

" حظر الخلوة بالمخطوبة:

يحرم الخلو بالمخطوبة، لانها محرمة على الخاطب حتى يعقد عليها.

ولم يرد الشرع بغير النظر، فبقيت على التحريم، ولانه لا يؤمن مع الخلوة مواقعة ما نهى الله عنه.

فإذا وجد محرم جازت الخلوة، لامتناع وقوع المعصية مع حضوره.

فعن جابر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من كان يؤمن بالله واليوم الاخر فلا يخلون بامرأة ليس معها ذو محرم منها، فان ثالثهما الشيطان) .

وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا يخلون رجل بامرأة لا تحل له، فان ثالثهما الشيطان إلا محرم) . رواهما أحمد.

خطر التهاون في الخلوة وضرره:

درج كثير من الناس على التهاون في هذا الشأن، فأباح لابنته أو قريبته.

أن تخالط خطيبها وتخلو معه دون رقابة، وتذهب معه حيث يريد من غير إشراف.

وقد نتج عن ذلك أن تعرضت المرأة لضياع شرفها وفساد فعافها وإهدار كرامتها.

وقد لا يتم الزواج فتكون قد أضافت إلى ذلك فوات الزواج منها".

( الزواج، ٢ / ٣٠ - ٣١، ط: دار الكتاب العربي، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں