بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد اس کو توڑنے کاحکم


سوال

آج سے چار سال پہلے میری ایک جگہ منگنی ہوئی،اس کے ایک سال بعد میں نے اپنے والدین سے کہنا شروع کیا کہ میرے لیے نکاح لازم ہوگیا ہے میری شادی کرادیں،والدین راضی نہ ہوئے اور یہ کہا کہ لڑکی والوں سے چارسال کے بعد نکاح کی بات ہوئی ہے،دو سال مزید میں یہی بات کرتا رہا ،والدین راضی نہ ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کےپاس صرف ایک سال  کا وقت ہے میرا نکاح کرادیں ،مزید تاخیر ہوئی تو میں یہ رشتہ ختم کردوں گا اور کسی دوسری جگہ خود نکاح کی بات کرلوں گا،اس کے بعد بھی ایک سال کا عرصہ مزید گزر گیا اور پورے چار سال گزر گئے اور اس کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ ہم مزید تین سال بعد شادی کریں گے کیوں کہ ہماری بیٹی یو نیورسٹی جاتی ہے اور فی الحال لڑکے کے پاس کوئی کاروبار بھی نہیں ہےاور شادی کے بعد لڑکی آن لائن جاب بھی کرے گی ،ان تمام باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکی شادی کے بعد بھی آزادانہ زندگی گزارےگی ،مثلاً :پردے کی حالت میں گاڑی چلائے گی اور غیر شرعی محافل میں شرکت وغیرہ ۔ان تمام باتوں کے بعد میں نے اس رشتہ سے انکار کردیااور ساتھ ہی ایک اور جگہ رشتے کی بات کرلی اور دوسرے لوگ اس رشتے پر راضی بھی ہوگئے اور یہ کہا کہ آپ اپنے والدین کو لے آئیں ،والدین نے پرانے سسرال والوں کو نہ ہی میرا انکار پہنچایا اور نہ ہی میرے ساتھ نئی جگہ چلنے پر راضی ہوئے ،جب کہ میں نے انکار کردیا ہے اور نئی سسرال والے لوگ بھی اصرار کررہے ہیں ۔

1) اب سوال یہ ہے کہ مجھ پر نکاح فرض ہے  اور میں ایک بیوی کا نان نفقہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں اور میں سابقہ جگہ پر رشتے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوں ،کیا میں والدین کی رضامندی کے بغیر دوسری جگہ نکاح کرسکتا ہوں ؟

2) چار سال کے عرصے میں والدین کی طرف سے جو کچھ ہوا،اس پر میری طرف سے نا مناسب رویہ سامنے آیا ،میں ان سے ناراض بھی رہا اور میں نے ڈھائی مہینہ سے ان کے گھر جانا بھی چھوڑا ہوا ہے۔کیا اس صورت حال میں میں نافرمان شمار ہورہا ہوں ؟شریعت اس صورت میں مجھے اور میرے والدین کو کیا حکم دیتی ہے؟

3) میرے گھر کا  ماحول بالکل بے دین ہے اسی وجہ سے میں نے والدین سے کہا ہے کہ نکاح کے بعد میری بیوی میرے ساتھ ایک الگ گھر میں رہے گی جب کہ والدین کا اصرار ہے کہ اجتماعی گھر میں ہی رہو گے۔کیا میرا اپنے والد سے گھر کے برے ماحول کی وجہ سے ایسا کہنا درست ہے؟

4) پچھلے چار سالوں  میں میں اپنے والد سے اصرار کرتا رہا کہ مجھ پر نکاح فرض ہے ،میرا نکاح کرادیں ۔جب کہ والد صاحب کہتے رہے کہ میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں حالاں کہ مجھے نکاح کی شدید ضرورت تھی کیا والد صاحب کا یہ کہنا درست ہے ؟

5) والد صاحب مجھے غیر شرعی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے اصرار کرتے ہیں حالاں کہ میں ایسی تقریبات میں شرکت نہیں کرتا ہوں ۔اس صورت حال میں میرے لیے کیاحکم ہے؟

6) سابقہ رشتے والوں نے جب لڑکی کو یونیورسٹی میں داخل کرایا تو میں نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ لڑکی کل  میرے نکاح میں آئے گی،جب کہ والد صاحب نے کہا کہ ان کی لڑکی ہے وہ جو چاہیں کرنے  دو۔کیا میرا منع کرنا درست تھا؟

جواب

منگنی نکاح کا  وعدہ  ہے اور بغیر کسی شرعی اور معقول  عذرکے  وعدہ  اورمعاہدہ کوتوڑنا  شرعاً  اور اخلاقاً  انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاس داری نہیں۔ البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو منگنی توڑنا جائز ہےاسی طرح والدین پر اولاد کے جس طرح اور حقوق ہیں اسی طرح ایک یہ حق بھی ہے کہ اولاد  جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردیں اور اس میں تاخیر نہ كریں بشرط یہ کہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔

اس تمہید کے بعد ترتیب وار جواب یہ ہے:

1) مناسب تو یہی ہے کہ اگر والدین کے کیے ہوئے رشتہ میں کوئی خلاف شریعت بات موجود نہ ہو تو وہیں رشتہ کرلیا جائے لیکن اگر سائل کو یہ لگتا ہے کہ لڑکی ،اس کے گھر والوں  اور سائل کے مزاج میں فرق ہونے کی وجہ سے نباہ مشکل ہے تو والدین کو پیار محبت سے سمجھائیں اور اگر یہ پھر بھی نہ مانیں تو سائل کو ان کی رضا مندی کے بغیر بھی دوسری جگہ رشتہ کرنے کی اجازت ہے۔

2) بڑھاپے میں اولاد کی خدمت کی والدین کو ضرورت ہوتی ہے ۔سائل اور اس کے والدین میں اختلاف رائے کی وجہ سے طبیعت میں کھنچاؤ کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین سے ملنا جلنا چھوڑدیا جائے اور ان سے قطع کلامی کرلی جائے ۔اس لیے سائل کے لیے یہ لازم ہے کہ والدین سے جا کے معافی،تلافی کرے اور ان  کے حقوق اداء کرے۔

3) والدین کے اصرار پر ان سے، گھر کا ماحول اسلامی بنانے کی درخواست کی جائے لیکن اگر وہ نہ مانیں تو اپنے آپ کو اس برے ماحول سے بچانے کےلیےالگ گھر میں بیوی کو رکھنے کی گنجائش ہے۔لیکن اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ الگ گھر میں جانے کی وجہ سے والدین کی خدمت اور ضروریات کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی پیدا نہ ہو۔

4) اگر نکاح کی اتنی شدید ضرورت تھی کہ نکاح نہ کرانے کی صورت میں سائل کے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ تھااور شادی کے بعد بیوی کے نان و نفقہ کا انتظام بھی سائل کے پاس تھاتو والد کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کےبجائے،تعاون کرنا چاہیے تھا،لیکن اگر سائل کےپاس روزگار نہیں تھا اور بیوی کی کفالت کا انتظام بھی نہ تھا تو پھر والد کا انکار غلط نہ تھا،بلکہ اس صورت میں والد پر اخراجات کا بوجھ ڈالنے کے بجائے خود کو ضبط کرنا چاہیے تھا۔

5) اگر والدین خلاف شرع بات پر اصرار کریں تو ان کی ایسی بات ماننا جائز نہیں ۔ہاں والدین سے بدتمیزی کے بجائے ان کو پیار و محبت سے سمجھا یاجائے اور ان سےبھی اس خلاف شرع تقریب میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کی جائے۔

6) سائل کا اپنی ہونے  ہونے والی منگیتر کے لیے اس ارادے سے اپنےتحفظات کا اظہار کر نا اور  اس کو  یونیورسٹی سے روکنا کہ انگریزی تعلیم کے مفاسد اس کی،بیگم کی  اور اولاد کی زندگیوں میں ظاہر نہ ہوں بالکل جائز ہے،اور اپنی آئندہ کی زندگی کو محفوظ اور اسلام کے مطابق بنانے کےلیے اگر والدین سائل کی یہ بات نہ مانیں تو اس بناء پر منگنی ختم کرنا  درست تھا۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

"عن أنس بن مالك قال ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن ‌لا ‌عهد ‌له."

ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص میں امانت کی پاسداری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس شخص میں وعد ہ کی پاسداری نہیں اس  کا  کوئی ایمان نہیں۔"

(مسند احمد، ص:376،ج:19، ط:مؤسسة الرسالة)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ ‌فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."

(ص:939، ج:2،‌‌ باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، ط: المکتب الإسلامی ،بیروت)

تفسیر کشاف میں ہے:

"‌قوا ‌أنفسكم بترك المعاصي وفعل الطاعات وأهليكم بأن تأخذوهم بما تأخذون به أنفسكم."

(ص:568، ج:4، سورۃ التحریم، ألآية:6، ط:دار الكتاب العربي)

در مختار ميں ہے :

"ويكون واجبا عند التوقان فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة."

(ص:6، ج:3، كتاب النكاح، ط:سعيد)

ترمذی شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولا طاعة."

(ص:209،ج:4،‌‌باب ما جاء لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ،ط:مصطفی البابی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وإن علم أنه لا يتعظ ولا ينزجر بالقول ولا بالفعل ولو بإعلام سلطان أو زوج أو والد له قدرة على المنع لا يلزمه ولا يأثم بتركه، لكن الأمر والنهي أفضل."

(ص:350،ج:1،کتاب الطهارۃ،مطلب فی الأمر بالمعروف،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں