بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگیتر سے بات چیت کرنے کا حکم


سوال

میری منگنی ہوچکی ہے اور میں جانتی ہوں کہ منگیتر نامحرم ہوتا ہے، اس سے بات کرنا منع ہے، لیکن اگر میں اپنی حدود کا خیال رکھتے ہوۓ کبھی کبھار کوئی بات کرنا چاہوں تو کیا مجھے شرعاً اس کی اجازت ہے؟ کیوں کہ اگر میں ان سے بات نہیں کرتی تو کسی اور نامحرم سے بات ہوجاتی ہے، میں نے اپنے منگیتر سے بات نہ کرکے دیکھا، لیکن شیطان بہت شاطر ہے، ان دنوں میری کسی اور سے بات ہوگئی، تو میں باقی سب سے بچنے کے لیے اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہوں کہ میں اپنی حدود کا خیال رکھتے ہوۓ مہینے میں ایک آدھ دفعہ بات کر لیا کروں، تو کیا ایسی مجبوری میں میرے لیے اپنے منگیتر سے بات کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعاً منگنی  نکاح نہیں ہے، بلکہ وعدۂ نکاح ہے، لہذا بوجۂ نکاح نہ ہونے کے منگیتر  نامحرم ہوتا ہے، اور اس پر شرعاً وہی احکام لاگو ہوتے ہیں جو دیگر اجنبیوں کے لیے ہیں، لہذا ان سے میاں بیوی جیسے روابط رکھنا، ہنسی مذاق، خوش طبعی، بلاضرورتِ شرعیہ بات چیت کرنا وغیرہ سب ناجائز ہیں؛ کیوں کہ ایسی صورت میں فتنے میں مبتلا ہونے کا شدید اندیشہ ہوتا ہے، جس کا انسداد شرعا لازم ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ كے ليے اپنے منگيتر سے بات چیت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

باقی سائلہ کا یہ کہنا کہ ’’اگر منگیتر سے بات چیت نہ کروں تو دیگر اجانب سے گفتگو کرنی پڑتی ہے‘‘ شرعاً منگیتر سے گفتگو کرنے کے جواز کے لیے کوئی عذر نہیں ہے؛ کیوں کہ ایک گناہ سے بچنے کے لیے کسی دوسرے گناہ کا ارتکاب روا نہیں ہے، بلکہ اس گناہ سے اجتناب لازم ہے۔

البتہ سائلہ کی پریشانی کا شرعی حل یہی ہے کہ جتنا ہوسکے خاندان والوں کو اعتماد میں لے کر جلد از جلد نکاح کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا ‌صوت ‌المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب فی ستر العورۃ، ج:1، ص:406، ط:سعید)

فیہ ایضاً:

"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا ‌يكلم ‌الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا.

وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه.

"(قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز."

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللمس والنظر، ج:6، ص:369، ط:سعید)

احکام القرآن للجصاص  میں ہے:

"قوله تعالى: {فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض}،  قيل فيه أن لا تلين القول للرجال على وجه يوجب الطمع فيهن من أهل الريبة. وفيه الدلالة على أن ذلك حكم سائر النساء في نهيهن عن إلانة القول للرجال على وجه يوجب الطمع فيهن ويستدل به على رغبتهن فيهم، والدلالة على أن الأحسن بالمرأة أن لا ترفع صوتها بحيث يسمعها الرجال،  وفيه الدلالة على أن المرأة منهية عن الأذان، وكذلك قال أصحابنا وقال الله تعالى في آية أخرى: {ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن} ،  فإذا كانت منهية عن إسماع صوت خلخالها فكلامها إذا كانت شابة تخشى من قبلها الفتنة أولى بالنهي عنه."

(سورۃ الاحزاب، الآیۃ:32، ج:3، ص:471، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں