بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگل والے دن بال کٹوانے،ناخن تراشنے اور حجامت کروانے کا حکم


سوال

میں نے ایک بیان میں سنا کہ منگل کے دن بال کٹوانا، ناخن تراشنااور حجامت کروانا ممنوع  اور خلافِ سنت ہےاور بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ حدیث مشکاۃ میں آئی ہے،اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سائل کی مراد اگر حجامت کروانے سے بال بنوانا ہے تو  بال کٹوانااور ناخن تراشنا چاہے کسی بھی دن ہو جائز ہے،اور اگر سائل کی مراد حجامت کروانے سے پچھنے لگوانا ہےتو اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ مشکاۃ المصابیح میں منگل کے دن حجامت کروانے( پچھنے لگوانے) کی  جو ممانعت آئی  یہ اس وقت جب ( چاند والے ) مہینے کی سترویں تاریخ نہ ہو اور اگر (چاند والے ) مہینے کی سترویں تاریخ والا  دن منگل کا بھی دن ہو تو اس دن حجامت کروانا( پچھنے لگوانا) جائز اور بہتر ہے، تاہم منگل والے دن بال کٹوانے اور ناخن تراشنے سے ممانعت والی حدیث مشکاۃ المصابیح میں نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن كبشة بنت أبي بكرة: أن أباها كان ينهي أهله عن الحجامة يوم ‌الثلاثاء ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أن يوم ‌الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقأ» . رواه أبو داود "

(‌‌كتاب الطب والرقى،‌‌الفصل الثاني،ج:2،ص:1283،ط:المكتب الإسلامي )

مرقاۃ المفاتیح میں ہے: 

" (وروى رزين نحوه عن أبي هريرة رضي الله عنه) . قال ميرك: ولفظه: " «إذا وافق سبع عشرة يوم الثلاثاء كان دواء للسنة لمن احتجم» " قال المنذري: هكذا ذكره رزين، ولا أراه في الأصول التي جمعها والله أعلم. قلت: وفي الجامع الصغير مثل ما في المشكاة إلا أن لفظه " لداء سنة " بالتنكير. وقال: رواه ابن سعد والطبراني وابن عدي عن معقل، وحاصل الكلام أن يوم الثلاثاء اختلف الرواية فيه، فينبغي أن يتوقى ما لم يكن فيه ‌إليها ‌ضرورة. والله أعلم"

 (‌‌كتاب الطب والرقى،ج:7،ص:2892،ط:،دار الفكر)

فقط  والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں