بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مندر آنے والے کافر و مشرک ہندؤں کو مسلمانوں کی جانب سے راستہ میں کھانا کھلانے کا حکم


سوال

ہمارے یہاں ایک علاقہ ہے جس کا نام "امباجی" ہے، وہاں ایک مندر ہے اور مخصوص دنوں میں دور دراز سے کافر چل کر مندر آتے ہیں تو راستے میں بہت سے کافر کیمپ لگاتے ہیں تاکہ چلنے والے لوگ بیٹھ کر کھانا کھاسکیں اور آرام کریں، اب کچھ مسلمان بھی ان کافروں کے لیے کیمپ لگا کران کی مدد کرتے ہیں، اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام ہمیں اخلاق سکھاتا ہے، تو کیا اخلاق کی آڑ میں مشرک کی کفر  و شرک میں مدد کرنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ  اخلاق و نیک برتاؤ  اور ظاہری خوش خُلقی سے پیش آنا درست ہے،  اور اسلامی اخلاق سے متاثر کرکے غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اسی کی اجازت ہے،لیکن اس بات کا لحاظ رہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک میں حدودِ شریعت کو پامال کرکے تعاون علی  الاثم تک نہ پہنچے، صورتِ مسئولہ میں ہندو کا مندر کی طرف جاتے ہوئے استقبال کرنا، اور ان کوکھانا اور سائے وغیرہ کی جگہ فراہم کرناجائز نہیں ہے، یہ ان کے استقبال اورغلط فعل(بت پرستی)پر حوصلہ افزائی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ تعاون علی الاثم ہے، لہذا اس سے اجتناب کرے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقَوْله تَعَالَى: {وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى} يَقْتَضِي ظَاهِرُهُ إيجَابَ التَّعَاوُنِ عَلَى كُلِّ مَا كان تَعَالَى؛ لِأَنَّ الْبِرَّ هُوَ طَاعَاتُ اللَّهِ وقَوْله تعالى: {وَلاتَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ} نَهْيٌ عَنْ مُعَاوَنَةِ غَيْرِنَا عَلَى مَعَاصِي اللَّهِ تَعَالَى".

( المائدة: آية: ٢، ٣ / ٢٩٦، ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله : {وتعاونوا على البر والتقوى ولاتعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل، والتعاون على المآثم والمحارم".

[المائدة، رقم الأية: ٢]

سورہ آل عمران میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾ [28]

ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں