بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی ملک میں غیرمسلموں کے لیے جدید عبادت گاہیں بنانا


سوال

حال ہی میں گورنمنٹ نے اسلام آباد میں تقریباً 4 کنال جگہ ایک ہندو مندر کے لیے مختص کی ہے. سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی ریاست میں یہ عمل جائز ہے؟ 

جواب

شریعتِ مطہرہ نے جس طرح مسلمانوں کے حقوق بیان کیے ہیں، اور ان کی جان مال عزت آبرو  کی حفاظت کا پابند کیا ہے، بالکل اسی طرح غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کیے ہیں، خاص طور پر ان  غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کا مسلمانوں کو پابند کیا ہے  جو مسلم ممالک میں بستے ہوں، اور مسلم حکومتوں کے ماتحت رہتے ہوں،  اور  حاکم وقت پر لازم ہے کہ جس طرح سے مسلمانوں کو جان مال عزت آبرو کا تحفظ فراہم کیا جائے، اسی طرح غیر مسلم اقلیتوں کو جان مال عزت آبرو کا تحفظ دیا جائے، اس کے ساتھ  ساتھ  اسلام نے انہیں مذہبی آزادی بھی دی ہے، یہاں تک کہ ان کے مذہبی تہواروں میں دخل اندازی سے بھی منع کیا ہے، اور ان کی قدیم عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے کی اجازت نہیں دی ہے، البتہ مسلمانوں کے ماتحت رہنے والوں پر کچھ  پابندیاں بھی عائد کی ہیں، ان پابندیوں میں سے ایک پابندی نئی عبادت گاہوں کی تعمیر   ہے،  پس غیر مسلم اقلیت مسلم ممالک میں اپنی نئی عبادت گاہ قائم نہیں کرسکتے، اسی طرح سے غیرمسلموں کو یہ اختیار  بھی نہیں دیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پراپنے مذہب کا پرچار کریں،  اور  غیرمسلموں کی عبادت  کو اپنےگھروں اور قدیم عبادت گاہوں تک محدود  رکھا ہے۔  پس غیرمسلم اپنے لیے نئی عبادت گا ہ تعمیر  نہیں کرسکتے، اور نہ ہی اپنی کسی قدیم عبادت گاہ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ہندوؤں سمیت کسی بھی غیرمسلم کو پاکستان سمیت مسلمانوں کے کسی بھی ملک کے کسی شہر  یا  گاؤں میں کہیں بھی نئے مندر یا غیر مسلم اقلیت کے کسی بھی نئے عبادت خانہ کی تعمیر  کی شرعاً اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی مسلمان کاریگروں اور مزدوروں کے لیے ایسی کسی تعمیر میں حصہ لینا درست ہے، اور نہ ہی حاکمِ وقت کو  اس بات کا شرعاً اختیار حاصل ہے کہ وہ غیر مسلم اقلیت کی نئی عبادت گاہ  سرکاری خرچہ پر تعمیر کروائے یا اس کے لیے جگہ فراہم کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا شرک کرنے اور غیراللہ کی پرستش کرنے میں معاونت کرنا ہے، جو کہ بنصِ قرآنی حرام ہے، اور اسی پر امت کا سلفاً و خلفاً اجماع ہے۔

 اگر حکومتِ وقت مندر  یا غیر مسلموں کے عبادت خانے تعمیر کرواتی ہے، ایسی صورت میں جتنے لوگ ان جگہوں پر غیر اللہ کی پرستش کریں گے، حکومتِ وقت اور اس کے معاونین و اربابِ اختیار کو از روئے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے اس   گناہ کے برابر  گناہ ہوگا، لہذا حکومتِ وقت پر لازم ہے کہ ایسا کوئی اقدام ہرگز نہ کرے جو حکمرانوں کے لیے گناہ جاریہ کا باعث ہو۔

تفصیلی دلائل کے لیے ملاحظہ ہو:

مسلم ممالک میں غیر مسلم اقوام کی عبادت گاہ، مندر وغیرہ تعمیر کرنے کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں