بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منع کرنےکےباوجود بیوی کی طرف سےقربانی کرنےکاحکم


سوال

 ایک شوہر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے ، لیکن اس کی بیوی کہتی ہے کہ اگرآپ نے میرے نام سے قربانی کی، تو اپنی ماں سے زنا کرو گے، اب اس عورت کے ایمان کا کیا حکم ہے ؟ نیز اگر شوہرپھربھی بڑے جانور میں اپنی اس بیوی کی جانب سے حصہ ڈالے،تواس حصہ کی اورباقی حصہ داروں کی قربانی کاکیاحکم ہوگا؟ 

جواب

واضح رہےکہ بیوی کااپنےشوہرکےلیےمذکورہ الفاظ استعمال کرناانتہائی نامناسب ہے،ایسےالفاظ استعمال کرنےسےاجتناب کرنالازم ہے،صورتِ مسئولہ میں بیوی کےان الفاظ سےاگرشوہرکی دل آزاری ہوئی ہو،تواس پربیوی شوہرسےمعافی مانگیں،اورپھراللہ تعالی سےبھی توبہ واستغفارکرے،تاہم بیوی کی اس  بات سےبیوی کاایمان ختم  نہیں ہوا،باقی قربانی کاحکم یہ ہےکہ اگربیوی پرقربانی واجب تھی ،اورشوہرنےاس کی طرف سےقربانی کرلی ہے،تواجازت نہ ہونےکی وجہ سےبیوی کی قربانی نہیں ہوئی،اوراگربڑےجانورمیں حصہ ڈال کرقربانی کی تھی،توتمام حصہ داروں کی بھی قربانی نہیں ہوئی،اوراگربیوی پرقربانی واجب نہیں تھی،اورشوہرنےاس کی اجازت کےبغیراس کاحصہ ڈال دیا،توسب کی قربانی ہوجائےگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «ضحوا فإنها سنة أبيكم إبراهيم، - عليه الصلاة والسلام -» أمر - عليه الصلاة والسلام - بالتضحية والأمر المطلق عن القرينة يقتضي الوجوب في حق العمل وروي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «على أهل كل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة» و " على " كلمة إيجاب، ثم نسخت العتيرة فثبتت الأضحاة وروي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من لم يضح فلا يقربن مصلانا» وهذا خرج مخرج الوعيد على ترك الأضحية، ولا وعيد إلا بترك الواجب."

(كتاب التضحية،٦٢/٥،ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعا؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحما فصار الكل لحما، وفي قول الحسن بن زياد إذا ضحى ببدنة عن نفسه وعن خمسة من أولاده الصغار وعن أم ولده بأمرها أو بغير أمرها لا تجوز عنه ولا عنهم، قال أبو القاسم - رحمه الله تعالى -: تجوز عن نفسه، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الأضحية،الباب السابع في التضحية عن الغير وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه،٣٠٢/٥،ط:ماجدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں