بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے الفاظ تین دفعہ کہنے اور بچوں کی پرورش اور جہیز و مہر کی ادائیگی کا حکم


سوال

 میری شادی2 فروری 2013ء میں ہوئی اور رخصتی 22 مارچ   2013ء کو ہوئی ،  چار سال کے اندر میری شادی ختم ہوئی ،  ان چار سالوں میں میرے شوہر مجھے مارتے  پیٹتے  تھے اور میرا ایک بیٹا ہوا  ، جو کانوں سے معذور ہے ،  سن نہیں سکتا  اور ان چار سالوں میں میرے شوہر نے اپنے رشتے داروں کے سامنے دس دفعہ زبانی ان الفاظ سے کہ :" میں تم کو طلاق دیتا ہوں" طلاقیں دی ہیں ۔ جب میرا بیٹا نو ماہ کا ہوا ،  تب میرے شوہر نے مجھے بیٹے کے ساتھ 20 اکتوبر 2016ء کو  میرے والدین کے گھر چھوڑا  ۔

اب بچے کی عمر چھ سال ہے ،  اب تک نہ اس نے پوچھا  اور  نہ اس کے گھر والوں نے اور نہ ہی کبھی آئے،  میں نے اپنے بچے کی دیکھ بھال کی اور علاج بھی کروایا  ، اس نے بچے کا کبھی خرچہ تک نہیں دیا  ،اس نے صرف میرا فرنیچر بھیجا ، اس کے علاوہ کچھ نہیں بھیجا  ۔

میرے والدین کی طرف سے مجھے دیا ہوا  گولڈ کا سیٹ  اور  میرے حقِ مہر کے  گولڈ کا سیٹ بھی نہیں دیا اور  میرے بیٹے کے لیے کوئی  سامان نہیں  دیا ، ان چھ سالوں میں کبھی بھی  وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے نہیں  آیا اور  نہ ہی بیٹے کے بارے میں کبھی  پوچھا اور نہ ہی خرچہ دیا ۔

سوال یہ ہے کہ :

1۔ کیا  میری طلاق ہوگئی ہے  ؟ 

2۔میرے بیٹے پر اب اس کے باپ کا کوئی حق رہتا ہے یا نہیں ؟

3۔میرے والدین کی طرف سے مجھے دیا ہوا  گولڈ کا سیٹ  اور  میرے حقِ مہر کے  گولڈ کا سیٹ دونوں  میرے  شوہر نے نہیں واپس نہیں کیے، کیا وہ شوہر کے ہیں یا میرے ہیں ؟

جواب

1۔صورت ِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان واقعۃ ً درست ہے کہ سائلہ کو اس کے شوہر نے دس  مرتبہ   یہ  الفاظ بولے تھے   کہ :" میں تم کو طلاق دیتا ہوں"تو اس سے سائلہ پر  تینوں  طلاقیں واقع ہو چکی تھیں اور سائلہ شوہر پر حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی  تھی ،اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں تھا ، تین طلاقوں   کے بعد جتنا عرصہ ساتھ رہے ہیں اس پر توبہ و استغفار کرنا  ضروری ہے ۔

2۔سائلہ کے بیٹے کی سات سال کی  عمر ہونے تک پرورش کا حق سائلہ کو ہے اور اس دوران بیٹے کا خرچہ باپ پر  ہے  اور سات سال کے بعد  تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہے جس  کا حق والد کو ہوگا ، سائلہ نے بیٹے پر جو خرچہ کیا تھا چونکہ والد سے اس بارے میں طے نہیں کیا تھا اور نہ ہی عدالت سے خرچہ منظور کروایا تھا لہذا کیا ہوا خرچہ تبرع شمار ہو گا، اب ماضی کے اخراجات کے بارے میں   مطالبہ  کا حق حاصل نہیں ہے ۔ 

3۔سائلہ کو والدین کی طرف سے سونے کا جو سیٹ ملا تھا  اور وہ سونے کا سیٹ جو شوہر نے حق ِ مہر میں دیا تھا وہ دونوں سیٹ سائلہ کی ملکیت ہیں ، سائلہ کے شوہر پر لازم ہے کہ وہ دونوں سیٹ سائلہ كو واپس کرے۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح

و في الرد : (قوله : فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره۔"

(کتاب الطلاق ، رکن الطلاق: 3 / 235 ، ط: سعید)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(هي للأم ولو بعد الطلاق ما لم تتزوج) يعني بزوج آخر غير محرم للطفل۔"

(كتاب الطلاق ، باب الحضانة : 1/410 ، ط : دار إحياء الكتب العربية)

الاختيار لتعليل المختارميں ہے:

"قال: (ومن لها الحضانة إذا تزوجت بأجنبي سقط حقها) لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «أنت أحق به ما لم تنكحي۔"

(كتاب الطلاق ، باب النفقة ، فصل فی الحضانة : 4/ 15 ، ط : مطبعة الحلبي - القاهرة)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله : والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى يحتاج إلى تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف وما ذكره المصنف من التقدير بسبع قول الخصاف اعتبارا للغالب.......

(قوله : وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى۔"

 (كتاب الطلاق ، باب الحضانة : 4 / 184 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

 الدر المختار وحاشيۃ ابن عابدين  میں ہے :

"وفيه عن المبتغى (جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها........

(قوله : ليس له الاسترداد منها) هذا إذا كان العرف مستمرا أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية۔"

(كتاب النكاح ، باب المهر : 3 / 155 ، ط : سعید)

 فتاوی ہندیہ    میں ہے :

"لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى۔"

(کتاب النکاح ، الباب السابع فی المہر ،الفصل السادس عشر في جهاز البنت : 1 / 327 ، ط : رشیدیہ)

الدر المختار میں ہے :

"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)۔"

(کتاب النکاح ، باب المہر : 3 / 102 ، ط : سعید)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144304100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں