بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں شریک بہن/ والد کی باپ شریک بہن سے نکاح کرنے کاحکم


سوال

۱۔والد(زید)اور اس کےبیٹے(عمرو) کی نکاح میں  دو سگی بہنیں(عائشہ اور فاطمہ)ہیں،یعنی ایک بہن(عائشہ) سے والد(زید) نے نکاح کیا ہے اور ایک بہن(فاطمہ) سے بیٹے(عمرو) نے  نکاح کیا ہے،باپ کی ایک بیٹی(ماریہ) ہے اور بیٹے عمرو کا ایک بیٹا(حماد ) ہے ،آیا حماد کا نکاح ماریہ سےجائز ہے یا نہیں؟؟

۲۔زید نے دو شادیاں کی تھی،ایک عائشہ سے اور دوسری کسی اور خاتون سے، دوسری خاتون سے عمرو بیٹاپیدا ہوا ،اور اس کی شادی فاطمہ( عائشہ کی بہن ) سے ہوئی ،جبکہ زید کی عائشہ سےبھی  ایک بیٹی ماریہ ہوئی ،پھر زید کے انتقال کے بعد عائشہ نے دوسری شادی بکر (زید کے بھائی) سے کی ،اور اس سے ایک بیٹاحماد پیدا ہوا،اب آیا حماد کا نکاح ماریہ  سے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

۱۔صورت ِ مذکورہ میں عائشہ کی بیٹی عمروکے بیٹے کی والدہ کی  طر ف سے اگر چہ خالہ زاد بہن ہے، لیکن والد کی طرف سے ماریہ حماد کی علاتی(باپ شریک) پھوپھو  ہے،اور جس طرح سگی پھوپھو سے نکاح جائز نہیں ہے،اسی طرح علاتی پھوپھو سے بھی نکاح جائز نہیں ہے۔

۲۔ صورت مسئولہ میں عائشہ کے پہلے شوہر کی بیٹی ماریہ کی شادی دوسرے شوہر کے بیٹے حماد سے جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ اس صورت میں حماد اور ماریہ دونوں ماں شریک بھائی بہن ہے ،اور جس طرح سگے بھائی بہن کا نکاح جائزنہیں ہے ،اسی طرح ماں شریک بھائی بہن کا نکاح بھی جائز نہیں ہے۔

قرآن ِمجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ."

(سورة النساء: 23)

ترجمہ:’’تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاںاور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاںاور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اورتمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہےاور ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹیوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑی رحمت والے ہیں۔ـ‘‘

(بیان القرآن:ج:1،ص:343،ط:مکتبہ رحمانیہ)

’’اول محرمات نسبیہ:۔۔۔اور تمہاری بہنیں ( خواہ عینی ہوں یا علاتی یا اخیافی) اور تمہاری پھوپھیاں(اس میں باپ کی اور سب مذکر اصول کی تینوں قسم کی بہنیں آگئیں)۔‘‘

(بیان القرآن:ج:1،ص:344،ط:مکتبہ رحمانیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"حرم۔۔۔۔أخته۔۔۔وعمته۔۔الأشقاء وغيرهن."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص:28،29،30، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں