بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں سید ہو باپ سید نہ ہو تو بیٹے کے لیے زکاۃ لینا


سوال

میں ایک سید گھر سے ہوں ،میں ایک بیوہ عورت ہوں ،میرا شوہر سید نہیں تھا،میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر 18 سال ہے ،یہ صاحبِ نصاب بھی نہیں ہے ،بلکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے،اس کا علاج چل رہاہے ،اس کو جو انجیکشن لگتے ہیں اس کی قیمت ایک کی 38365  روپے ہے جو ہر ماہ 7 لگتے ہیں ۔

یہ انجیکشن لگوانے کے لیےکیا میرا بیٹا زکاۃ لے سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نسب باپ سے چلتا ہے ،ماں سے نہیں ،چنانچہ اگر کسی شخص کا باپ سید نہیں ہے اور ماں سید ہے تو یہ شخص سید نہیں کہلائے گا ۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیٹا صاحبِ نصاب نہیں ہے یعنی  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اس قدر رقم نہیں ہے جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کے برابر ہو ، یا اس قدر ضرورت سے زائد سامان بھی نہ ہو کہ جس کی مجموعی مالیت بقدر نصاب ہو تو ایسی صورت میں سائلہ کے  اس بیٹے  کو علاج وغیرہ کی مد میں زکوٰۃ کی رقم دینا اور اس  کے لیے زکاۃ کا لینا  جائز ہے ۔

ملحوظ :یہ سوال کا جواب ہے ،نہ واقعہ کی تصدیق ہے اور نہ ہی مذکورہ لڑکے  کے حق میں سفارش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(كتاب الزكاة .باب المصرف. 2/ 339ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"ويؤخذ من هذا أن من ‌كانت ‌أمها علوية مثلا وأبوها عجمي يكون العجمي كفؤا لها، وإن كان لها شرف ما لأن النسب للآباء ولهذا جاز دفع الزكاة إليها فلا يعتبر التفاوت بينهما من جهة شرف الأم ولم أر من صرح بهذا والله أعلم."

(‌‌كتاب النكاح‌‌،باب الكفاءة،3/ 87،ط:سعید)

العقود الدریة فی تنقیح الحامدیة میں ہے:

"(سئل) في رجل فقير شريف من الأم هل يجوز له أخذ الزكاة؟

(الجواب) : قد كثر الكلام بين العلماء الأعلام في حكم الشرف من الأمهات في جميع الحالات وألفوا في ذلك رسائل وأكثروا فيها المسائل منهم عالم فلسطين المرحوم الشيخ خير الدين ورسالته من أشرفها وأسماها وقد سماها الفوز والغنم في الشرف من الأم وجزم بعدم حصوله على أحكام القرشيين لتصريح الفقهاء بأن الولد يتبع أباه بيقين مستدلين بقوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن} [البقرة: 233] فالزوجة تلد الولد للزوج ولا ينسب إليها وإنما ينسب إليه ومؤنته عليه وحكمة النسبة أن تخلق العظم والعصب والعروق من مائه والحسن والجمال والسمن والهزال مما يزول ولا يبقى كالأصول من مائها وعلى كل حال له نسبة إلى المصطفى صلى الله عليه وسلم وله شرف ما بلا خفاء حيث هو من ذرية الشرفا وكفاه ذلك شرفا ولما لم تحصل له الأحكام المتعلقة بالقرشيين بلا اشتباه جاز له الزكاة."

( باب الزكاة والعشر (1/ 12)،ط.دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں