بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں اور بیٹی مل کے بغیر محرم کے عمرہ پر جاسکتی ہیں یا نہیں؟


سوال

کیا ماں اور بیٹی دونوں مل کر بنا محرم کے عمرہ پر جا سکتی ہیں؟ جیسے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے تو کیا دو عورتیں مل کر ایک محرم مرد کے برابر ہو جائیں گی؟

جواب

واضح رہے کہ  عورتوں کے لیے سفرشرعی کی مسافت (48 میل) یا اس سے زیادہ اکیلے یعنی  بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، عمرے کا سفر ہو یا کوئی اور سفر، کسی بھی حالت میں  محرم کے بغیر جانا جائز نہیں۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں ماں اور بیٹی  کے لیے محرم کے بغیر اکیلے عمرہ پر جانا شرعاً جائز نہیں ،جب تک محرم کا انتظام نہیں  ہوتا ،اللہ تعالی سے دعا کرتی رہے اور درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھے،اوراس طلب وشوق پر اللہ تعالی سے بھرپور اجر کی امید رکھے ۔

دوعورتوں کی گواہی شرعا ایک مرد کی گواہی کے  برابر  اس وقت ہوتی ہے جب ان کے ساتھ ایک مرد بھی ہو ورنہ ایک مرد کے بغیر دنیا کی ساری عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ،لہذا سوال میں جو مطلقا استدلال کیاگیا وہ درست نہیں۔

حدیث میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تسافر ‌مسيرة ‌يوم وليلة ليس معها حرمة".

(بخاری شریف ،ابواب تقصیر الصلاۃ،ج:1،ص:369،دار ابن کثیر )

وفيه أيضاّ:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل فقال: يا رسول الله، امرأتي ‌خرجت ‌حاجة، واكتتبت في غزوة كذا كذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك".

(بخاری شریف ،باب لا یخلون رجل بامراۃ۔۔۔۔۔،ج:5،ص:2005،دارابن کثیر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا  إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة ويشترط أن يكون مأمونا عاقلا بالغا حرا كان أو عبدا كافرا كان أو مسلما هكذا في فتاوى قاضي خان والمجوسي إذا كان يعتقد إباحة مناكحتها لا يسافر معها كذا في محيط السرخسي والمراهق كالبالغ وعبد المرأة ليس بمحرم لها كذا في الجوهرة النيرة ولا عبرة للصبي الذي لا يحتلم والمجنون الذي لا يفيق كذا في محيط السرخسي وتجب عليها النفقة والراحلة في مالها للمحرم ليحج بها، وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج، وإن لم يكن لها محرم لا يجب عليها أن تتزوج للحج كذا في فتاوى قاضي خان ثم تكلموا أن أمن الطريق وسلامة البدن - على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ووجود المحرم للمرأة شرط لوجوب الحج أم لأدائه، بعضهم جعلوها شرطا للوجوب وبعضهم شرطا للأداء، وهو الصحيح وثمرة الخلاف فيما إذا مات قبل الحج فعلى قول الأولين لا تلزمه الوصية وعلى قول الآخرين تلزمه كذا في النهاية".

(کتاب المناسک ،ج:1،ص:218،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) ولو (للإرث رجلان) إلا في حوادث صبيان المكتب فإنه يقبل فيها شهادة المعلم منفردا قهستاني عن التجنيس (أو رجل وامرأتان) ولا يفرق بينهما {فتذكر إحداهما الأخرى} [البقرة: 282] ولا تقبل شهادة أربع بلا رجل لئلا يكثر خروجهن."

 (‌‌كتاب الشهادات،5/ 465،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں