بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کے کہنے پر بیوی کی حقوق غصب کرنا


سوال

 ایک شخص  جو  اپنی بیوی  کے حقوق کو  اپنی   ماں  کے  کہنے  پر  غصب  کرے  اور  یہ  کہے  کہ  میری  ماں جو  بولے  گی  میں  وہی  کروں گا، بیوی کا  علاج معالجہ  خرچ سب کچھ ماں کے کہنے پر ہوگا ، یہ شخص خود کماتا ہے،  کیا شادی کے بعد اپنے بیوی کے حقوق اس پر لازم نہیں؟  اور اگر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس کا گناہ کس پر ہوگا اس پر یا اس کی ماں پر؟

جواب

واضح رہے کہ جائز باتوں میں ماں کی بات ماننا ضروری ہے،  لیکن ناجائز وظلم کی باتوں میں ماں کی بات ماننا  جائز نہیں ، ورنہ  ماں بیٹا دونوں گناہ گار ہوں گے۔  لہذا   ماں کے  کہنے پر بیوی کی واجب حقوق غصب کرنا جائز نہیں ،اور نہ   شوہر  بیوی کے واجب حقوق (نان ونفقہ وغیرہ )  کی ادائیگی میں ماں سے اجازت لینے کا پابند ہے، اسی طرح بیوی کا   علاج معالجہ  بھی آج کل  اخلاقا وعرفا شوہر پر لازم ہے، اس لئے  شوہر  اس میں بھی ماں سے اجازت لینے  کا پابند نہیں، البتہ اگر اسراف وفضول خرچی سے   بچانے کے خاطر  ماں بیٹے   کو  پابند بناتی ہے کہ میری اجازت کے بغیر کوئی کام نہ کرنا  تو یہ اچھی بات ہے ،  لیکن اس کی آڑ میں کسی کا حق  ضائع کرنا جائز نہیں۔

" عن ابن مسعود: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "كيف بك يا عبد الله إذا كان عليكم أُمراء يُضيعون السُّنةَ ويؤخرون الصلاة عن ميقاتها؟ "، قال: كيف تأمرني يا رسول الله؟، قال: "تسألني ابنَ أُمِّ عَبْدٍ كيف تفعل؟، لا. طاعةَ لمخلوقٍ في معصية الله عز وجل".

اخرجه الامام أحمد في مسنده في مسند عبدالله بن مسعود (4/ 73) برقم (3889)،ط. دار الحديث - القاهرة،الطبعة: الأولى، 1416 هـ - 1995 م

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"نفقات العلاج: قرر فقهاء المذاهب الأربعة: أن الزوج لا يجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لا تجب الفاكهة لغير أدم.

ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالبا إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلى العلاج كالحاجة إلى الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المريض يفضل غالبا ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟!."

(الفقه الاسلامي وادلته: الفصل الخامس النفقات،المبحث الأول ـ نفقة الزوجة ، المطلب الأول ـ معنى النفقة وأنواعها، ووجوبها، ومن تجب عليه، وسبب وجوبها  ، المسألة الثالثة ـ الزوجة المريضة ، نفقات العلاج (10/ 110)،ط.  دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں