بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں باپ اور بیوی کے حقوق میں اعتدال کا طریقہ


سوال

ایک شخص کی بیوی کردار کے اعتبار سے ٹھیک ہے ، لیکن اس کی ساس اسے اور اپنے بیٹے کو صرف اس وجہ سے برا بھلا کہتی ہے کہ وہ اس کی خدمت اس کے مزاج کے مطابق نہیں کرتی ، بیوی کا کہنا یہ ہے کہ میں خدمت کرنا چاہتی ہوں ، لیکن وہ مجھ پر ہر وقت تنقید کرتے ہیں،  اس لیے میرا دل نہیں چاہتا تو اس وجہ سے  ماں ،بیٹے کے سامنے اس کی بیوی کو ہمیشہ برا بھلا کہتی ہے ، بیٹا  خوب برداشت کرنے کے باوجود بیوی کی صفائی میں بولتا ہے اور بات طول پکڑ لیتی ہے اور  بیٹے  کی آواز   نہ  چاہتے   ہوئے بھی ماں باپ کے سامنے اونچی ہو جاتی ہے ، سوال یہ ہے کہ  کیا یہ بیٹا  نافرمان شمار ہوگا اور  اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا، حال آں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے ایسا کر بیٹھتا ہے ؟  گھر والے باربار بول کر اسے غصہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ 

جواب

شریعتِ مطہرہ نے ماں باپ اور بیوی  دونوں کو علیحدہ حیثیت  اور مرتبہ  دیا ہے اور دونوں کے علیحدہ حقوق مقرر کیے ہیں، اس طور پر کہ دونوں کے مرتبہ اور مقام کو سمجھ کر اگر کوئی شخص ان کے حقوق کی بجا آوری کرے تو کبھی ٹکراؤ  کی کیفیت پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے، بس اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت نے ماں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ  ماں کی اطاعت وفرماں برداری کو بھی لازم قرار دیا ہے، جب کہ بیوی کے صرف حقوق کی ادائیگی لازم ہے، نہ کہ اس کی اطاعت شعاری وفرماں برداری، بلکہ بیوی کے ذمے  لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی مطیع وفرماں بردار بن کر رہے، احترام دونوں ہی کو اپنے مرتبہ کے لحاظ سے حاصل ہے،  اور  ذمہ  داریاں بھی دونو ں سے متعلق الگ الگ طے ہیں۔

لہذا مذکورہ صورت میں بیٹے کو  چاہیے کہ اپنی بیوی کو سمجھا بجھا کر والدین کی خدمت پر آمادہ کرے اور  ماں باپ  سے نرمی سے بات کرے ، ان کے ساتھ بلند آواز سے گفتگو نہ کرے، ماں باپ کے سامنے آواز بلند کرکے بات کرنا قطعاً درست نہیں ۔  فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144110201751

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں