بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہوں،کہنے کا حکم،اور بچوں کی پرورش کا حق


سوال

میرا شوہر شادی کے بعد ایک ماہ میرے ساتھ رہا ، پھر اس کے بعد اس نے مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھا اور چھوڑ کر کراچی چلا گیا،  میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ، اب اس نے پیغام بھیجا ہے کہ  :"میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہوں" ۔ اب عرض یہ ہے کہ میرے مہر میں  ایک لاکھ روپے   اور ایک  کمرہ لکھاہوا ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور میری بچی کی پرورش کس پر ہےاور بچی کا خرچ کس پر  لازم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے یہ پیغام بھیجا کہ :"میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہو ں"تو اس سے سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے، عدت کے اندر اندر  شوہر کو بغیر نکاح کے  رجوع کا حق حاصل ہے،اگر عدت میں رجوع کر لیا  تو نکاح برقرار رہے گا ،ورنہ عدت گزرنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا،باقی     پورے مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے۔

نوسال کی عمر ہونے تک بچی کی  پرورش کا حق ماں کو ہے،تاہم خرچہ باپ پر ہے،پھر  اس کےبعد باپ کو لینے کا اختیار ہوگا۔

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"أن ‌المهر ‌وجب بنفس العقد ... وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه۔"

(کتاب النکاح، باب المہر: 3 / 102، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"‌فإن ‌سرحتك ‌كناية ‌لكنه ‌في ‌عرف ‌الفرس ‌غلب ‌استعماله ‌في ‌الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت۔"

(کتاب الطلاق، باب الکنایات:3 / 299، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں