بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معمولی باتوں پر قطع تعلقی کرنا


سوال

میرے والد صاحب اکثر رشتہ داروں کو ملنے سے منع کرتے ہیں، جیسے میرے خالو اور خالہ لوگ، اور وہ دعوت پر بلاتے ہیں اور وہ بھی کبھی کبھی زیادتی کرتے ہیں، جیسے میری والدہ بیماری کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں، وہ کبھی حال پوچھنے نہیں آئے، اس صورت میں کیا ہم ان کی دعوت پر چلے جائیں یا والد صاحب کا حکم مانیں؟ والد صاحب کہتے ہیں: آپ کی مرضی ہے آپ جاؤ یا نہ جاؤ، لیکن میں نہیں جاؤں گا، اس صورت میں کیا ہم والدین کے نافرمان تو نہیں ہوں گے؟

جواب

  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں، جس میں سے ایک حق بیمار کی  مزاج پرسی کرنا بھی ہے، اور  اس کے علاوہ  بھی بیمار کی مزاج پرسی  پر احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں، اور قرابت داری کا حق بھی ہے کہ ایک دوسرے کاخیال رکھا جائے، لیکن اگر کوئی رشتہ دار اس حق کو ادا نہیں کرتا تو اس کی اس غلطی کو  بنیاد بنا کر دشتہ داروں سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہے؛ کیوں کہ جن لوگوں نے آپ کی والدہ کی تیمار داری نہیں کی انہوں نے اپنا نقصان کیا ہے کہ بیمار کی مزاج پرُسی کے جو فضائل ہیں وہ اس سے محروم ہوئے ہیں۔ اب ان سے قطع تعلق کر کے آپ اور آپ کے والد قطع تعلقی والی وعیدات کے مستحق نہ ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہ جائے گا، اور ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تجھ سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تجھ پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو، جو تم سے بُرائی سے پیش آئے تم اس سے اچھائی کے ساتھ پیش آئے۔

  لہذا سائل کو چاہیے کہ  مذکورہ احادیث کی روشنی میں  ایسی حکمت عملی کے ساتھ  والد صاحب کو سمجھائیں  کہ وہ بھی ناراض نہ ہوں اور قطع تعلقی سے بھی بچ جائیں۔  اگر والد صاحب خود نہیں جاتے، لیکن آپ لوگوں کو صاف منع نہیں کرتے، بلکہ آزاد چھوڑتے ہیں تو آپ کبھی کبھی ان قریبی رشتہ داروں کے ہاں چلے جایا کریں، اور اگر والد صاحب سختی سے منع کریں تو فی الوقت والد صاحب کی بات مان لیں، البتہ فون وغیرہ کے ذریعہ رابطہ برقرار رکھ کر صلہ رحمی کرتے رہیں، اور کبھی غمی یا خوشی کا موقع ہو تو شرکت کرلیا کریں، نیز والد صاحب کی فہمائش کی بھی کوشش جاری رکھیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد، حدثنا عمرو بن أبي سلمة، عن الأوزاعي، قال: أخبرني ابن شهاب، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس". 

(صحیح البخاری،ج: 2، صفحہ: 71، رقم الحدیث:1240، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)

وفیہ ایضا: 

"عن ابن شهاب، أن محمد بن جبير بن مطعم، قال: إن جبير بن مطعم، أخبره: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يدخل الجنة قاطع»."

(باب إثم القاطع،ج: 8، صفحہ: 5، رقم الحدیث:  5984) 

وفیہ ایضا:

"حدثنا حسين بن محمد، حدثنا ابن عياش، عن أسيد بن عبد الرحمن الخثعمي، عن فروة بن مجاهد اللخمي، عن عقبة بن عامر، قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: "يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك".

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:  28، صفحہ: 654، رقم الحدیث: 17452، ط:  مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں