بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مملوکہ پرندہ پکڑنے اور مالک کو واپس کرنے کا حکم


سوال

کسی کا پرندہ پکڑ کر رکھنا جائز ہے؟ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی نے پرندہ پکڑا، مالک آۓ تو اس سے بھی کچھ رقم لے کر دیتے ہیں اور عرف میں پکڑنے والے کی ملکیت سمجھا جاتا ہے، اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی نے  دوسرے شخص کا  مملوکہ پالتو پرندہ پکڑلیا اور مالک آجائے تو اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا، اور اسی طرح اگر اس میں کوئی ایسی علامت ہو جس سے کسی دوسرے شخص کا مملوکہ ہونا معلوم ہوتا ہو تو بھی اس کی تشہیر کی جائے  اور جب مالک آجائے تو اس مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگا،  اور واپس کرنے پر مالک سے پیسے لینا بھی جائز نہیں ہے۔

 اگر وہ پرندہ پالتو نہ ہو، بلکہ  وحشی، جنگلی اور شکار ہو، لیکن پہلے کسی شخص نے اس کو پکڑلیا تھا تو وہ اس کا مالک بن گیا، اب اگر وہ  اس کے پاس سے اڑجائے اور وہ آسانی سے اس کو پکڑ نہ سکتا ہو اور اس  کے بعد کسی دوسرے شخص نے اس کا شکار کرلیا تو وہ دوسرا شخص اس کا مالک بن جائے گا۔

الفتاوى الهندية (2 / 294):

"من أخذ بازيًا أو شبهه في سواد أو مصر، وفي رجليه تبر وجلاجل وهو يعرف أنه أهلي فعليه أن يعرف ليرده على أهله، وكذلك إن أخذ ظبيًا في عنقه قلادة، كذا في المحيط."

الفتاوى الهندية (5 / 418):

"نصب شبكةً فتعقل بها صيد فجاء إنسان وأخذه قبل أن يتخلص و يطير، فهو للأول؛ لأنّ سبب الملك انعقد في حق الأول؛ لأنه موضوع له، ولم ينتقض السبب بعد حتى لو أخذه الثاني بعد ما تخلص، وطار فهو للثاني؛ لأنه انتقض السبب قبل أخذ الثاني كذا في الكبرى ولو كان صاحب الشبكة أخذه ثم انفلت منه ثم أخذه آخر فهو ملك للأول لأنه ملكه بالأخذ وانفلاته بمنزلة إباق العبد وشرود البعير وذلك لايوجب زوال ملكه، كذا في محيط السرخسي.

ذكر الحاكم الشهيد - رحمه الله تعالى - في المنتقى رجل هيأ موضعا يخرج منه الماء إلى أرض له ليصيد السمك في أرضه فخرج الماء من ذلك الموضع إلى أرضه بسمك كثير، ثم ذهب الماء وبقي السمك في أرضه، أو لم يذهب الماء إلا أنه قل حتى صار السمك يؤخذ بغير صيد فلا سبيل لأحد على هذا السمك، وهو لرب الأرض، ومن أخذ منه شيئا ضمنه، ولو كان الماء كثيرا لا يقدر على السمك الذي فيه إلا بصيد فمن اصطاد منه شيئا فهو له، كذا في الذخيرة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں