بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مملوکہ اور کرائے پر لی ہوئی زمین سے بورنگ کے ذریعہ پانی نکال کر بیچنے کا حکم


سوال

(1)زمین میں بورنگ کر کے پانی حاصل کرنا اور پھر اسے بوتلوں میں بھر کر فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ جب کہ پانی کو فلٹر نہیں کیا ہو، خریدنے والے لوگ اسے پینے میں بھی استعمال کرسکتے ہیں اور کھانا بنانے یا نہانے وغیرہ میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اور اگر پانی کو فلٹر کر کے فروخت کیا جائے تب کیا حکم ہے؟ خریداروں میں سے ہر کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بورنگ کا پانی ہے، البتہ اگر وہ پوچھ لے تو اسے بتادیا جاتا ہے، لیکن عام طور پر لوگ اسے فلٹر کیا ہوا پانی ہی سمجھتے ہیں۔

(2)اپنی مملوکہ زمین میں بورنگ کر کے پانی نکالا جائے یا کرائے پر لی ہوئی زمین میں بورنگ کر ے پانی نکالا جائے، دونوں صورتوں کا حکم بتادیں۔

جواب

(1)ویسے تو پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہرایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے،     لیکن  اگر کوئی شخص پانی کو   برتن، مشکیزہ،  ٹینک، کین وغیرہ میں محفوظ کرلے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے۔ اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے، لہٰذا اگر زمین میں بورنگ کر کے زمین سے پانی نکال کر محفوظ کرلیا جائے تو اسے فروخت کرنا جائز ہے، چاہے فلٹر کر کے فروخت کیا جائے یا فلٹر کیے بغیر فروخت کیا جائے، البتہ اگر فلٹر کیے بغیر پانی اس طرح فروخت کیا جاتا ہو کہ خریدار اسے فلٹر کیا ہوا پانی سمجھتے ہوں تو ایسی صورت میں فروخت کرتے وقت اس بات کی صراحت کرنا ضروری ہوگا کہ یہ پانی فلٹر شدہ نہیں ہے، تاکہ دھوکہ دہی لازم نہ آئے، پانی جس جگہ فروخت کیا جاتا ہو اس جگہ پر واضح طور پر یہ بات لکھ کر لگادینا بھی کافی ہوگا کہ یہ پانی فلٹر شدہ نہیں ہے۔

(2)اپنی مملوکہ زمین پر بورنگ کر کے پانی نکالنا تو مطلقا جائز ہے، البتہ کرائے پر لی ہوئی جگہ میں بورنگ کرکے پانی نکالنے کے جائز ہونے کے لیے زمین کے مالک کی طرف سے اجازت ہونا ضروری ہے، زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر زمین میں بورنگ کر کے پانی نکال کر فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

 البتہ  اس سلسلے میں (یعنی بورنگ کرکے اور فلٹر پلانٹ لگاکر پانی بیچنے کے لیے) اگر قانونی طور حکومتی اجازت نامہ  ضروری ہو تو اس کی اورحفظانِ صحت کے اصولوں کی رعایت رکھی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إن صاحب البئرلایملك الماء ... و هذامادام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتیال، کمافي السواني فلاشك في ملکه له؛ لحیازته له في الکیزان، ثم صبه في البرك بعد حیازته".

(  کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملك الماء، 5 / 67، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره، هكذا في الحاوي، وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء، هكذا في محيط السرخسي۔ فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به، فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه، كذا في الذخيرة، وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة،كذافي محيط السرخسي.

وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب: أن الحوض إذا كان مجصصاً أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه ولكن يشترط أن ينقطع الجري حتى لا يختلط المبيع بغير المبيع".

(کتاب البیوع،الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز،الفصل السابع في بيع الماء والجمد، 3/ 121،ط: رشیدیہ)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"وله أن يعمل فيها كل عمل لايورث الوهن والضرر للبناء لكن ليس له أن يفعل ما يورث الضرر والوهن إلا بإذن صاحبها".

(الكتاب الثاني: في الإجارات، الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه،الفصل الأول في بيان مسائل تتعلق بإجارة العقار وأحكامها،1/ 99،ط: نور محمد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144303100899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں