بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مماتی حضرات کی تقریر سننا


سوال

مماتی حضرات جن کو علماء نے دیوبند سے خارج لکھا ہے، کیا ان مماتی حضرات کا کسی موضوع پر کوئی بھی بیان سن سکتے ہیں؟ خواہ وہ بیان دفاعِ صحابہ کرام،شانِ رسالت صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،ختمِ نبوت،یا پھر کسی بھی موضوع پر ہو تو کیا ان کا بیان سن سکتے ہیں؟

جواب

اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ اور تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوات و التسلیمات وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں، ان کو روزی دی جاتی ہے، ان کے اَبدانِ مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور جسدِ عنصری کے ساتھ عالمِ برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، اور یہ حیات، حیاتِ دنیوی کے مماثل، بلکہ بعض وجوہ سے حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، البتہ اَحکامِ شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں، روضۂ اقدس میں جو درود پڑھا جاتا ہے حضور ﷺ اس کو خود بلا واسطہ سنتے ہیں۔

جو لوگ  عقیدۂ حیاۃ الانبیاء کے منکر ہیں ،جن کو عرف میں مماتی کہا جاتا ہے ،وہ  اہل السنت وا لجماعت سے خارج  ہیں ،   لہذاان کی  تقریر سننے  سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مجمع الزوائد میں ہے :

"وعن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون».رواه أبو يعلى والبزار، ورجال أبي يعلى ثقات."

(کتاب فیہ ذکر الانبیاء ،باب ذکر الانبیاء،رقم الحدیث:13812 ، 211/8،ط:دار المامون للتراث)

مشکوۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(کتاب الصلاۃ ،باب الصلوۃ علی النبی ،الفصل الثالث ،  87/1،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی )

شرح الشفا للملا علی قاری رحمہ اللہ میں ہے :

"‌فمن ‌المعتقد ‌المعتمد أنه صلى الله تعالى عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقا بالعالم العلوي والسلفي كما كانوا في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون."

(شرح الشفا،فصل :فی تخصیصہ علیہ الصلاۃ والسلام بتبلیغ صلاۃ من صلی علیہ صلاۃ اوسلم من الانام ، 142/2،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتح الباری میں ہے :

"إن حياته صلى الله عليه وسلم في القبر لايعقبها موت بل يستمر حيا والأنبياء أحياء في قبورهم."

(کتاب فضائل اصحاب رسول اللہ،باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلا، 29/7،ط:دار المعرفۃ بیروت)

عمدۃ القاری میں  ہے:

"من أنكر الحياة في القبر، وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم، وأجاب أهل السنة عن ذلك."

(کتاب فضائل اصحاب رسول اللہ،باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلا، 185/16 ،ط:دار احیاء التراث العربی،بیروت)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے :

"میرا اور میرے اکابر کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ  روضئہ اطہر میں حیات جسمانی کے ساتھ حیات ہیں اور یہ حیات برزخی ہے ۔۔۔جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ میرے اکابرؒ کے نزدیک گمراہ ہے اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ،اس کی تقریر سننا جائز نہیں ،اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق روا نہیں ۔"

(باب عقیدہ حیات النبی ﷺ پر اجماع ، 309/1،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی )

المھند علی المفند میں ہے :

"عندنا وعند مشائخنا : حضرۃ الرسالة صلي الله عليه وسلم حيٌّ في قبرہ الشریف وحیاتة صلي الله عليه وسلم دنیویّة من غیر تکلیفٍ، وھي مختصة بها وبجمیع الأنبیاء صلوات ﷲ علیھم والشھدآء لابرزخیَّة، کما ھي حاصلة لسائر المؤْمنین بل لجمیع الناس، نصّ علیہ العلّامة السیوطي في رسالته ’’إنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘حیث قال: قال الشیخ تقي الدین السبکي: حیاۃ الأنبیآء والشھدآء في القبر کحیاتھم في الدنیا ویشھد له صلاۃ موسٰی علیه السلام في قبرہ، فإنّ الصلاۃ تستدعي جسدًا حیًّا إلٰی اٰخر ما قال: فثبت بھذا أنّ حیاته دنیویَّة برزخیّة لکونھا في عالم البرزخِ".

(المھند علی المفند للمحدث السھارنفوری،الجواب عن السوال الخامس: مسألة حیاۃ النبي صلی ﷲ علیه وسلم،ص:۲۱،۲۲ط: دار الإشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں