بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مماتی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

 اگر کسی نے مماتی سے نکاح کر لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مرد تو مماتی تھا یا وہ بعد میں مماتی ہوگیا،  اب اس نکاح کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام وفات کے بعد اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اجسامِ مبارکہ کو محفوظ رکھا ہے، مٹی انہیں نہیں کھاتی، اور ان کی حیات عام برزخی حیات نہیں ہے، بلکہ مؤمنین صالحین اور شہداءِ کرام کی حیات سے بڑھ کر حیات ہے، جس کا تعلق ان کے اجسامِ مبارکہ سے بھی ہے، احادیثِ مبارکہ سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا اپنی قبورِ مبارکہ میں نماز ادا کرنا بھی ثابت ہے۔  اور  جو لوگ   اہلِ سنت والجماعت کے اس اجماعی عقیدے کے مطابق حیات الانبیاءعلیھم الصلوۃ والسلام  کے مفہوم کا انکار کرتے ہیں ان کو  عرف میں "مماتی"   کہا جاتا ہے، اور یہ اہلِ سنت و الجماعت  کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہیں،  اسی لیے  ان کے پیچھے نماز  پڑھنا بھی مکروہِ تحریمی ہے۔

لہذا مماتی عقیدے کے حامل شخص سے  نکاح کر نے میں احتیاط کی جائے،  اس لیے کہ بیوی اپنے شوہر کے ماتحت ہوتی ہے اور شوہر کے اس طرح عقائد و اعمال رکھنے سے بیوی کے عقائد و اعمال خراب ہو نے کا قوی اندیشہ ہے ، تاہم جب مماتی عقیدے کے حامل شخص سے  نکاح کرلیا گیا (چاہے  ان کے مماتی ہو نے کا علم تھا یا بعد میں معلوم ہوا )تو نکاح منعقد ہو گیا ، اب شرعاً یہ میاں بیوی ہی کہلائیں گے اور میاں بیوی کے جو حقوق ہیں وہ  ان پر ادا کر نا لازم ہوں گے۔ 

بدائع الصنائع ميں هے : 

"وأما ركن النكاح فهو الإيجاب والقبول."

(كتاب النكاح ،فصل ركن النكاح ، ج: 2 ص: 229 ط: دارالكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] ، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} [المائدة: 5] .

والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح إلا أنه جوز نكاح الكتابية؛ لرجاء إسلامها."

(کتاب النکاح، فصل ان لاتکون المرأۃ مشرکۃ اذا کان الرجل مسلما ج: 2 ص: 270)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں