مُجھے ایک انتہائی اہم مسئلہ پہ فتویٰ درکار ہے، جس کے بارے میں میں بہت پریشان ہوں، میں آج سے 16 سال پہلے میٹرک کے بعد کالج میں ایڈمشن لینے کے لیے اپنے ماموں کے گھر گیا تھا، وہاں جا کر معلوم ہوا کے میرے ماموں اور ممانی کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، میں نے اس ضمن میں کافی کوشش کی اور ان کے یہ تعلقات ٹھیک ہو گئے اور طلاق کی نوبت آتے آتے رہ گئی، لیکن اس دوران میری اپنی ممانی سے قربت بڑھ گئی، لیکن میں نے اُن سے زنا نہیں کیا۔ ہاں البتہ میں نے اُن کے ناف سے اوپری جسم کے حصے کو بغیر لباس کے چھوا ہے اور میں نے شہوت بھی محسوس کی۔ جب کہ یہی کام میں نے لباس کی موجودگی میں بھی کیا ہے۔ جب کہ میری ممانی نے بغیر لباس کے کبھی بھی مُجھے نہیں چھوا۔ بعد میں میرا رشتہ میرے ماموں کی بیٹی سے ہو گیا۔ میں نے کسی دینی کتاب میں پڑھا ہے کہ یہ رشتہِ نہیں ہوسکتا۔ اب حالات یہ ہیں کہ میرے ماموں کو brain tumor ہو گیا ہے اور وہ بستر پر paralyse پڑے ہیں۔ میرے انکار کی صورت میں میرے ابو اور امی بھی مجھ سے سخت ناراض ہیں۔ میری کزن جس سے میرا رشتہ ہوا ہے وہ کہیں خودکشی نہ کر لے۔ اب جب کہ 10 سال تقریبًا ہو گئے ہیں رشتہ طے ہوئے اور اب شادی کا وقت آ گیا ہے تو کیا کیا جائے۔ ہمارے پورے خاندان کو پتا ہے کہ یہ رشته طے ہوا ہے؛ کیوں کہ یہ رشتہ خود میری والدہ نے مانگا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی گنجائش ہے کہ میرا وہاں نکاح ہو جائے؟
واضح ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو کسی حائل کے بغیر شہوت سے ہاتھ لگاتا ہے تو اس عورت کے اصول (والدہ وغیرہ) و فروع (بیٹی وغیرہ) اُس مرد پر حرام ہو جاتے ہیں جسے حرمتِ مصاہرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہو چکی ہے۔ سائل کا اپنی ممانی کی بیٹی کے ساتھ نکاح کسی صورت جائز نہیں ہے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ حکمت کے ساتھ از خود یا کسی کے ذریعے سے والدین کو اس صورتِ حال سے آگاہ کر دے، اور شرعی مسئلہ سمجھا دے، ورنہ ساری زندگی حرام کاری میں مبتلا رہے گا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقًا لايجد الماس حرارة الممسوس لاتثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقًا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة."
(کتاب نکاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، صفحه: 275، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200458
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن