بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفارش کے ذریعے ملازمت حاصل کرنا


سوال

میرے والد صاحب مجھے اپنے محکمہ میں بھرتی کرنا چاہتے ہیں جبکہ میں ان سے کہتاہوں کہ یہ سفارش ہے جوکہ نا جائز ہے۔ کس کی بات درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے کسی حق دار کو اس کاحق دلانے کی جائزسفارش کرنا اجروثواب کا باعث ہے، لیکن اہلیت نہ ہو تو سفارش کرنا گناہ کا باعث ہے،  بغیر استحقاق و اہلیت کے محض سفارش کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔

 اگر کوئی شخص نوکری کا اہل بھی ہو اور مستحق بھی ہو  اوروہ سفارش کے ذریعہ نوکری حاصل کرلے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، اور متعلقہ ذمہ داریاں اگر امانت داری کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دیتاہے تو تنخواہ بھی حلال ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل اگر  ملازمت کا اہل ہے اور والد جائز سفارش کے ذریعے ملازمت پر لگانا چاہتے ہیں تو جائز ہے، اور اگر سائل مذکورہ ملازمت کا اہل  اور مستحق نہیں ہے تو والد صاحب کا سفارش کے ذریعے ملازمت پر لگانا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر سائل کو یقین ہے کہ مذکورہ محکمہ میں سفارش اور رشوت کے بغیر ملازمت ممکن نہیں ہے تو والد صاحب سے الجھنے کے بجائے انھیں اداب کے دائرے میں رہتے ہوئے حکمت کے ساتھ  سمجھا دیں امید ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْبلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا ."(سورۃ النساء رقم الآیۃ:85)

ترجمہ:" جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں اس کو بھی ملے گا اس میں سے ایک حصہ، اور جو کوئی شفارش کرے  بُری بات میں اس پر بھی   ہے ایک بوجھ اس میں سے اور اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا۔"

ف7:  یعنی: اگر کوئی نیک کام میں سعی سفارس کرے جیسا کہ نبی علیہ السلام کا مسلمانوں کو جہاد کی تاکید فرمانا، یا کوئی بری بات میں ساعی ہو  جیسا منافق اور سست مسلمانوں کا جہاد سے ڈر کر دوسروں کو بھی ڈرانا  تو اول صورت میں ثواب کا اور دوسری صورت میں گناہ کا حصہ ملے گا، ایسے ہی اگر کوئی محتاج کی سفارش کرکے دولت مند سےکچھ دلوا دے تو یہ بھی خیرات کے ثواب میں شریک ہو گا اور جو کوئی کافر مسفد یا سارق کو سفارش کرکے چھڑا دے پھر وہ فساد اور چوری کرے تو یہ بھی شریک ہو گا فساد اور چوری میں۔ (ماخوذ از تفسیر عثمانی، ص: 119)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں