بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ تجارت کی زکات میں قیمت فروخت کا اعتبار کیا جائے گا


سوال

زید کی 3 دکانیں ہیں،اور ان سب کا حساب کرکے  دکانوں میں جو سامان تجارت رکھا ہے اس کی زکوۃ دینا چاہتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے اس مال کی کس قیمت کا اعتبار کیا جائے گا؟اس قیمت کا جس پر مارکیٹ سے خریدا تھا،یا اس قیمت پر جس پر آگے فروخت کرے گا،اگر فروخت کرنے کی قیمت کا اعتبار کیا جائے تو کسٹمرز کو مختلف قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے یعنی کسی کو کچھ سستا اور کسی کو زیادہ قیمت پر،تو زکوۃ کی ادائیگی میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟

جواب

مالِ تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کے لیےقیمتِ فروخت کا اعتبار ہے یعنی دکان میں رکھا سامانِ تجارت جس قیمت پر گاہک کو فروخت کیا جاتا ہے زکاۃ ادا کرنے کے لیے اسی قیمت سے حساب لگایا جائے گا، اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس وقت زکاۃ کا سال مکمل ہو اس وقت جو رقم بنیادی ضرورت، ماہانہ گھریلو اخراجات سے زائد ملکیت میں موجود ہو (چاہے وہ سامانِ تجارت بیچ کر حاصل ہوئی ہو یا کسی اور ذریعہ سے) اور جو سامانِ تجارت موجود ہو اس کی موجودہ بازاری قیمت (فروخت)  لگائی جائے، اور کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکاۃ ادا کردیاجائے،اگرچہ بعد میں کسی کو مہنگا اور کسی کو سستا فروخت کیا جائے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات.....إذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوي مائتي درهم فتم الحول ثم زاد السعر أو انتقص فإن أدى من عينها أدى خمسة أقفزة، وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب."

(کتاب الزکاۃ،الباب الثالث،الفصل الثانی فی العروض،179/1،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء..ويقوم في البلد الذي المال فيه.(قال ابن عابدین رحمه الله)وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح."

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم،286/2،ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عنوان:مالِ تجارت میں کس قیمت پر زکوۃ ہوگی؟

سوال:کتابوں کی بکری پر کمیشن وغیرہ نکال کر ہمیں بیس پچیس روپے فی سیکڑا بچ جاتا ہے،تو کتابوں کے اسٹاک میں اس لاگت پر زکوۃ واجب ہوگی جو ہمارا خرچ ان پر ہوا ہے،یا جس قیمت پر ہم کتابوں کو فروخت کرتے ہیں؟

جواب:بوقتِ ادائے زکوۃ یعنی سال بھر پوار ہونے پر جس قدر کی مالیت موجود ہو اس قدر پر زکوۃ واجب ہوگی۔"

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ العروض،415/9،ط:فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں