بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغصوبہ زمین خرید کر گھر بنانے اس میں عبادات کرنے اور اس زمین میں کاشت کاری کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نےشخصی  زمینوں پر قبضہ کیا ،جس میں دو قسم  کی زمینیں ہیں،ایک قسم  کی زمین میں بیچنے کی غرض سے پلاٹ بنادیے گئے ہیں،جب کہ دوسری قسم کی زمین میں کاشت کاری کی جاتی ہے۔

پہلی قسم کی زمین میں ایک شخص پلاٹ خریدتاہے  اوراس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جو پلاٹ میں خرید رہا ہوں  اور جس سے خرید رہا ہوں ،یہ اس کی ملکیت نہیں ہے،بلکہ دوسرے شخص کی ملکیت ہے، پھر بھی یہ شخص اس کو خرید کر اس پر گھر بناتا ہے اور اس میں رہتا ہے،دریافت یہ کرنا ہے کہ:

(الف)کیا خریدار کا وہ پلاٹ خریدنا جائز ہے؟

(ب)اس پلاٹ پر بنائے گئے گھر میں خریدار اور اس کے گھر والے  نماز،روزہ ،تراویح ،قرآن مجید کی تلاوت یا کسی بھی قسم کی عبادت کرتے ہیں ،ان  عبادات کی کیا حیثیت ہوگی؟

2۔دوسری قسم کی زمین میں ناجائز قابض شخص خود کاشکاری نہیں کرتا،بلکہ یہ زمین ایک دوسرے شخص کو کاشت کاری پر دے رکھی ہے ،جس میں سب  کچھ یعنی بیچ  سے لے کر تمام چیزیں   کاشت کار اپنی استعمال کرتا ہے،کاشت کار شخص ناجائز قابض شخص کو ہر فصل میں سے تیسرا حصہ    دیتا ہے اور دو  حصے اپنے پاس رکھتا ہے،ہمارے گاؤں میں یہ عرف ہے کہ کاشت کار مالک کو فصل کا تہائ یا ربع دیتا ہے ،کاشت کار کو بھی یہ  بات معلوم ہے کہ یہ زمین قبضہ کی ہے،دریافت یہ کرنا ہے کہ:

(الف)کاشت کار کے لیے قبضہ کی زمین کاشت کرنا کیسا ہے؟

(ب)کاشت کار کا اس زمین کی فصل کو گھر میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

1۔(الف)صورتِ مسئولہ میں جب خریدنے والے شخص کو معلوم ہے کہ مذکور ہ  زمین غصب کی ہے،  تو غاصب کے لیے مذکورہ زمین  غصب کرنا اور اس کو فروخت کرنا اور خریدار کے لیے اس کو خریدنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه۔"

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خبردار ! کسی  پر ظلم نہ کرنا ،جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال (لینا یا استعمال کرنا)اس کی مرضی اور خوشی کے  بغیر حلال نہیں ہے۔"(مظاہر حق)

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعارية،261/1، ط: رحمانية)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :

"قال ابن نمير: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى ‌سبع ‌أرضين"، قال ابن نمير: "من ‌سبع ‌أرضين."

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص (کسی کی) بالش بھر زمین از راہ ظلم لے گا ،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی۔"(مظاہر حق)

(مسند أحمد،مسند العشرۃ المبشرۃ،مسند سعید بن زید،2/ 291 ،ط:دار الحدیث،القاھرۃ)

(ب)مذکورہ غصب شدہ پلاٹ پر گھر بنانے کے بعد اس میں پڑھی جانے والی نمازیں اور دیگر عبادات مکروہ ہیں،تاہم فقہی نقطہ نظر سےوہ نمازیں اور دیگر عبادات ادا ہوگئی ہیں۔

2۔(الف)غاصب کے لیے مغصوبہ زمین  کاشت کے لیے دینا اور کاشت کار کا مذکورہ زمین میں کاشت کاری کرنا جائز نہیں ہے،جب کہ اس کو معلوم بھی ہے کہ مذکورہ زمین غصب  کی ہے،کاشت کار اور غاصب  پر لازم ہے کہ مذکورہ زمین اس کے اصل مالک کو لوٹائیں ۔

(ب) کاشت کار کا مذکورہ مغصوبہ   زمین سے حاصل ہونے والی  فصل کو گھر میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ  ثواب کی نیت کے بغیر  اس کو صدقہ کرنا لازم ہے،البتہ  جس قدر اس نے زمین میں بیج وغیرہ کاشت کیا اورکاشت کاری میں جتنا خرچہ کیاتو   اس کے بقدر  حاصل ہونے والی فصل سے لے سکتا ہے،اس سے  زائد کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم ہے۔نیز اگر زمین میں کاشت کاری کی وجہ سے نقصان ہوا ہو تو اس  کا ضمان بھی  مالک کو ادا کرنا لازم ہے ،جو وہ حاصل شدہ فصل سے لے سکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا تكره في أماكن كفوق كعبة وفي طريق ومزبلة ومجزرة ومقبرة ومغتسل وحمام وبطن واد ومعاطن إبل وغنم وبقر. زاد في الكافي: ومرابط دواب وإصطبل وطاحون وكنيف وسطوحها ومسيل واد وأرض مغصوبة أو للغير....

(قوله: وأرض مغصوبة أو للغير) لا حاجة إلى قوله أو للغير إذ الغصب يستلزمه .....وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ...."

(كتاب الصلاة،1/ 379،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصلاة ‌في ‌أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب. كذا في مختار الفتاوى الصلاة جائزة في جميع ذلك لاستجماع شرائطها وأركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. كذا في الهداية فإن كانت تلك الكراهة كراهة تحريم تجب الإعادة أو تنزيه تستحب فإن الكراهة التحريمية في رتبة الواجب كذا في فتح القدير.."

(کتاب الصلاۃ،الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره ،الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره،1/ 109،ط:رشیدية)

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"(وأما) صفة الملك الثابت للغاصب في المضمون: فلا خلاف بين أصحابنا في أن الملك الثابت له يظهر في حق نفاذ التصرفات، حتى لو باعه، أو وهبه، أو تصدق به قبل أداء الضمان ينفذ، كما تنفذ هذه التصرفات في المشترى شراء فاسدا، واختلفوا في أنه هل يباح له الانتفاع به بأن يأكله بنفسه، أو يطعمه غيره قبل أداء الضمان، فإذا حصل فيه فضل هل يتصدق بالفضل؟ قال أبو حنيفة - رضي الله عنه - ومحمد - رحمه الله -: لا يحل له الانتفاع، حتى يرضي صاحبه، وإن كان فيه فضل يتصدق بالفضل......وفي هذا الملك شبهة العدم؛ لأنه يثبت من وقت الغصب بطريق الاستناد، والمستند يظهر من وجه ويقتصر على الحال من وجه، فكان في وجوده من وقت الغصب شبهة العدم، فلا يثبت به الحل والطيب، ولأن الملك من وجه حصل بسبب محظور، أو وقع محظورا بابتدائه، فلا يخلو من خبث، ولأن إباحة الانتفاع قبل الإرضاء يؤدي إلى تسليط السفهاء على أكل أموال الناس بالباطل، وفتح باب الظلم على الظلمة، وهذا لا يجوز."

(کتاب الغصب،7/ 153،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا نقص) العقار (بسكناه وزراعته ضمن النقصان) بالإجماع ........

(قوله ضمن النقصان بالإجماع) ؛ لأنه إتلاف ..... ثم يأخذ الغاصب رأس ماله وهو البذر وما غرم من النقصان، وما أنفق على الزرع ويتصدق بالفضل عند الإمام ومحمد فلو غصب أرضا فزرعها كرين فأخرجت ثمانية، ولحقه من المؤنة قدر كر ونقصها قدر كر فإنه يأخذ أربعة أكرار ويتصدق بالباقي."

(كتاب الغصب،6/ 187،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں