بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مالک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز کو جس قیمت پر فروخت کرنا چاہے فروخت کرے؟


سوال

2015 ءمیں والد کے ترکہ کی تقسیم ہوگئی تھی، میرے حصے میں چار منزلہ ایک مکان آیا، دو منزلہ مکان مجھ سے میرے بھائی نے 23 لاکھ روپے دے کر لیا، معاملہ طے ہوتے وقت   شرط لگائی تھی کہ جب کوئی بھائی مکان بیچے گا تو دوسرے بھائی ہی کو بیچے گا، باہر کے کسی فرد کو نہیں بیچے گا، اب عاجز نے اپنے بھائی سے مطالبہ کیا کہ جو مکان میں نے آپ کو 23 لاکھ میں فروخت کیا تھا اب وہی 23 لاکھ روپے لے کر مجھے میرا مکان دے، مگر بھائی کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت کے حساب سے جو ریٹ ہے اس کے حساب سے آپ کو فروخت کروں گا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ ریٹ کے حساب سے مجھے دو منزلہ مکان لینا ہوگا یا 23 لاکھ کے حساب سے؟یامذکورہ بیع شروع ہی سے شریعت کی رو سے ٹھیک نہیں تھا؟

میرے ذہن یہ بات آرہی ہے کہ مذکوہ  دو منزلہ مکان مجھے اس وقت موجودہ ریٹ سے لینا ہوتا جب ہم دونوں بھائی پیسے ملا کر یہ مکان خرید لیتے،  حالاں کہ بات ایسی نہیں ہے،  بلکہ یہ مکان مجھے والد مرحوم کی میراث میں سے حصہ میں ملا ہے تو ایسی صورت میں جب میں نے بھائی پر فروخت کرلیا ہے تو ابھی دوبارہ مجھے واپس اسی ریٹ(23 لاکھ)کے حساب سے ملنا چاہیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو والد مرحوم کی میراث میں سے  جو چار منزلہ مکان ملا تھا، جس کی دو منزل سائل نے اپنے بھائی پر 23 لاکھ پر فروخت کر دیے تھے ، اب جب دوبارہ سائل وہی دو منزلہ مکان اپنے بھائی سے   لے رہا ہے تو سائل کے بھائی  کو اختیار ہے کہ چاہے  موجودہ قیمت کے حساب سے فروخت کرے یا پرانی قیمت کے حساب سے، اور سائل کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے پرانے قیمت کے حساب سے  ملنا چاہیے درست نہیں ہے، نیز اگر سائل مذکورہ مکان مارکیٹ ریٹ پر خریدنے کے لئے آمادہ نہ ہو تو بھائی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ کسی اور کو فروخت کردے۔

"دررالحكام في شرح مجلة الأحكام" میں ہے:

"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ."

(الكتاب الثاني الإجارة، الباب الرابع في بيان المسائل التي تتعلق بمدة الإجارة، ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره (انظر المادة 1192)، ج:1، ص:559، ط:دارالجيل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌للمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه أي تصرف شاء." 

(كتاب الدعوى، دعوى النسب، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، ج:6، ص:264، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں