بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مال مضاربت ہلاک ہونے کاحکم


سوال

میں تجارت کرتاتھاٹانک شہر میں میری دوکان تھی کچھ لوگوں نے مجھےبطور مضاربت روپے دیے اس طرح کہ منافع آپس میں نصف نصف تقسیم کریں گے ،مثلاًسال کے بعد دس ہزار منافع میں نصف میرے لیے اور نصف سرمایہ د ینے والے کےلیے ہوں گے اس طر ح  کئی سالوں کے منافع تقسیم کیے گئے میں اپنے زمانے کے مطابق ان پیسوں کی حفاظت کرتاتھا اپنی دکان میں ایک اسٹیل  کی الماری اس رقم کے لیے وقف کردی تھی اور بینک اکاؤنٹ میں بھی رقم جمع کی جاتی تھی پھر دودفعہ ایسا ہوا کہ رات کوچوروں  نے میری دکان کے تالے توڑ دی اور رقم نکال کرفرار ہوگئے پھر ایک دفعہ میں نقد کیش بینک میں جمع کرنے کےلیے جارہاتھاکہ اچانک بینک کے قریب مجھےڈاکووں نےگن پوائنٹ پر اغوا کیاکئی دنوں تک کسی خفیہ مقام میں رکھا مجھ سے ساری رقم لےلی اور تقریباً 25 دنوں تک مجھے یرغمال رکھا 25 دنوں کے بعد مجھے ایک دن ایک جنگل میں چھوڑ دیا بڑی مشکل سے اپنے گھر آیامزید یہ کہ کچھ لوگوں نے میرے پاس عارضی طور پر نقد رقم جمع کردی تھی یہ بھی ان حادثوں میں ضائع ہوگئی ،اب میں خالی ہاتھ ہوں اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً میں ان لوگوں کویہ رقم دینے کا ذمہ دار ہوں یانہیں کسی بھی ترتیب سے میں ان کو دینے کا ذمہ دار ہوں یانہیں قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون فرمایئں ۔

وضاحت :مضاربت کامعاہدہ ہر سال نیاہوتاتھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے پاس مضاربت کا مال امانت تھا ،اور امانت اگر بغیر تعدی و غفلت کے ہلاک ہوجائے تو امین  پر اس کاکوئی ضمان نہیں آتا،لہٰذا اگر سائل نے رقم رکھنے میں،دوکان بند کرنے میں ،تالالگانے میں ،کسی قسم کی غفلت نہیں کی تھی تو چوری ہوجانے کوصورت میں نقصان کا ذمہ دار سائل نہیں ہوگا ،اسی طرح بینک سے نکلتےہوئے سائل نے رقم کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی ،اس کے باوجود ڈاکوؤں نے وہ رقم لوٹ لی تو اس کا ضمان بھی سائل کے ذمہ نہیں ہے ،البتہ چونکہ سائل کئی سال سے یہ مضاربت کررہا تھااور سال بہ سال نفع تقسیم کرتاتھااور پھر دوبارہ نئے سرے سے اگلی مدت کے لیے معاہدہ ہوتا تھا تو ہر سال کی مضاربت کو الگ معاملہ شمار کیا جائے گا، لہٰذاتو جس سال  مضاربت کامال ہلاک ہوا ہے، تو پہلے صرف اسی سال کے اب تک ہونے والے نفع سے نقصان کی تلافی کی جائے گی ،اگر نفع کم پڑجائے اور نقصان پورا نہ ہورہا ہو تو پھر اصل سرمایہ سے نقصا ن کو شمار کیاجائے گا  سائل پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔

اور جن لوگوں نے عارضی طور پر اپنی رقم سائل کے پاس جمع کی تھی وہ رقم سائل کے پاس امانت تھی وہ بھی اگر بغیر تعدی کے ہلاک ہوئی ہے تو اس کابھی سائل ذمہ دار نہیں ہے ۔

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے :

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين(وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن)."

(كتاب المضاربت ،فصل في المتفرقات،ج:5،ص:656،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن سرقت الوديعة عند المودع ولم يسرق معها مال آخر للمودع لم يضمن عندنا، كذا في الكافي."

(کتاب الودیعۃ ،الباب الرابع فيما يكون تضييعا للوديعة وما لا يكون،ج:4،ص:346،ظ:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں